:سوال
میں آج کل نوکری کے سلسلے میں الہ آباد میں ہوں تو الہ آباد میرے واسطے سفر خیال کیا جائے گا یا نہیں؟ لیکن جنٹ صاحب کی کوٹھی میں رہتا ہوں اور الہ آباد ایک ہفتہ سے زیادہ رہنا نہیں ہوتا لیکن پھر اسی روز واپس آنا پڑتا ہے، الہ آباد میں نماز سفر کی پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اور الہ آباد سے کرنا ایک مقام ہے جو قریب دس میل کے ہے وہاں پر بھی سفر کی نماز پڑھی جائے گی یا نہیں ؟ وہ الہ آباد ہی کے ضلع میں ہے جواب جلد مرحمت فرمائے۔
:جواب
الہ آباد تمھارا وطن اصلی نہیں، نہ جنٹ صاحب کی کوٹھی ٹھہر نا اسے کسی کا وطن کر دے گا جبکہ جنٹ خود آج کل وہاں نہیں بلکہ پندرہ دن قیام کی نیت دیکھی جائے گی اگر اس سے کم مدت قیام کی نیت ہے یا مقدار قیام کچھ معلوم نہیں کسی کام کیلئے گئے ہوں اس کے ہو جانے کا انتظار ہو جائے تو آج چلے جاؤ، بیسں دن بعد ہو تو اس صورت میں اللہ آباد کا رہنا تمھارے لئے سفر ہی سمجھا جائے گا نماز سفر کی پڑھو اگر چہ انتظار انتظار میں مہینے گزر جائیں، یونہی اطراف میں جہاں چاہو چار رکعت کی دو ہی پڑھو جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہر نے کی نیت الہ آباد میں کر لی ہے تو اب الہ آباد وطن اقامت ہو گیا نماز پوری پڑھی جائے گی جب تک وہاں سے تین منزل (۹۲ کلومیٹر یعنی شرعی مسافت) سے کم باہر جانا اور دن کے دن واپس آنا ہوجبکہ نیت کرتے وقت اس پندرہ دن میں کسی رات دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ور نہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہوگی مثلا الہ آبادمیں پندرہ روز ٹھہر نے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہوگا تویہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفرہی رہا اگر چہ دوسری جگہ الہ آباد کےضلع میں بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو، اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگر چہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا تو اقامت صحیح ہوگئی نماز پوری پڑھی جائے گی جبکہ وہ دوسری جگہ الہ آباد سے چھتیس کوس یعنی اٹھاون اٹھاون میل (۹۲ کلومیٹر کے فاصلے پر نہ ہو غرض قیام کی نیت کرتے وقت ان خیالوں کا اعتبار ہے بعد کو جو پیش آئے اُس کا لحاظ نہیں مثلاً پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرا لیا اور اس کے بعد اتفاقا چند راتوں کے لئے اور جگہ جاتا ہو جوالہ آباد سے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں اگرچہ دس بیسں بلکہ چھین میل تک ہو سفرنہ ہوگا اس مقام دیگر میں بھی نماز پر ی پڑھنی ہوگی اور الہ آباد میں بھی ان سب صورتوں کو خوب غور سے سمجھ لو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 254