عالم کا مسجد میں سونا اور کھانا پینا کیسا؟
:سوال
اگر کوئی عالم مسجد میں سوئے اور مسند تکیہ مسجد میں اندر لگائے اور کھانا مسجد میں ایک جماعت کے ساتھ کھائے اور اگالدان مسجد میں رکھے اور گھوڑے کی زین اور اور اسباب وغیرہ مسجد میں رکھے یہ سب شرع سے درست ہے نہیں؟
:جواب
مسجد میں سونا کھانا بحالت اعتکاف جائز ہے، اگر جماعت معتکف ہو تو مل کر کھا سکتے ہیں، بہر حال یہ لازم ہے کہ کوئی چیز، شور با یا شیر و غیرہ کی چھینٹ مسجد میں نہ گرے، اور سوائے حالت اعتکاف مسجد میں سونا یا کھانا دونوں مکروہ ہیں خاص کر ایک جماعت کے ساتھ کہ مکروہ فعل کا اور لوگوں کو بھی اس میں مرتکب بناتا ہے۔ مسند لگانا اگر براہ تکبر ہے تو یہ خارج مسجد بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اليس في جهنم مشوى للمتكبرين ) ترجمہ: کیا نہیں ہے جہنم میں ٹھکانہ متکبرین کا۔ اور اگر براہ تکبر نہیں کسی دوسرے نے اس کے لئے رکھ دی یہ اس کی خاطر سے بدیں لحاظ کہ امیر المومنین مولی علی کرم انہ تعالی وجہ الکریم فرمائے ہیں ((لا یابی الكرامة الاحمار) ترجمہ: عزت و احترام کا انکار کوئی گدھا ہی کر سکتا ہے۔
(کنز العمال ، ج 9، ص 155 ، موسسة الرسالة ، بیروت)
مزید پڑھیں:اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں کھانا اور سونا کیسا؟
ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تو بھی یہ مسجد میں نہ ہونا چاہئے کہ ادب مسجد کے خلاف ہے، ہاں ضعف یا درد کے سبب مجبور ہو تو معذور ہے۔ اگالدان اگر پیک کے لئے رکھا ہے تو غیر مختلف کو مسجد میں پان کھانا خود مکروہ ہے، اور اگر کھانسی ہے بلغم بار بار آتا ہے
اس غرض کے لئے رکھا تو حرج نہیں۔ اور گھوڑے کا زین وغیرہ اسباب بھی بلا ضرورت شرعیہ مسجد میں رکھنا نہ چاہئے، مسجد کو گھر کے مشابہ بھی کرنا نہ چاہئے۔ رسول اللہ لا الہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ( (ان المساجد لم تبن لهذا) ترجمہ: مساجد ان چیزوں کی خاطر نہیں بنائی جاتی
(صحیح مسلم ، ج 1 ص 210 نور محمد اصح المطابع ، کراچی )
مزید پڑھیں:امام مسجد کے حجرے میں تعویذ بیچتا ہے، شرعاً کیسا ہے؟
خصوصاً اگر چیزیں رکھے جن سے نماز کی جگہ رکے تو سخت نا جائز وگناہ ہے۔ با ایں ہمہ یہ ہی یاد رکھنا فر ض ہے کہ حقیقتہ علم دین ہادی خلق کی صحیح العقیدہ و ہوا کو اس پر اعتراض اس کے افعال میں نکتہ چینی اس کی عیب بینی حرام حرام حرام اور باعث سخت محرومی اور بد نصیبی ہے، اول تو لاکھوں مسائل و احکام فرق نیت سے متبدل ہو جاتے ہیں ، رسول اللہ صل اللہ تعالی علی وسلم فرماتے ہیں ( (انما الاعمال بالنيات وانما لكل امرى (مانوی)) ترجمہ: اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ۔
حیح البخاری ، ج 1 ، ص 2، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
علم نیت ایک عظیم واسع علم ہے جسے علمائے ماہرین ہی جانتے ہیں، عوام بیچارے فرق پر مطلع نہ ہو کر ان کے افعال کو اپنی حرکات پر قیاس کرتے اور حکم لگا دیتے اور کار پاکاں را قیاس از خود مگیر کے ، مورد بنتے ہیں۔ اسی مسئلہ میں دیکھئے شرعاً اعتکاف کے لئے نہ روزہ شرط ہے نہ کسی قدر مدت کی خصوصیت، ولہذا مستحب ہے کہ آدمی جب مسجد میں جائے اعتکاف کی نیت کرلے، جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب بھی پائے گا، علما اعتکاف ہی کی نیت سے مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور اب اُن کو سونا ، کھانا، پیک کیلئے اگالدان رکھنا روا ہو گا۔
مزید پڑھیں:لوگ مسجد میں گالی گلوچ کریں تو ان لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟
اس سے قطع نظر بھی ہو تو جاہل کو سنی عالم پر اعتراض نہیں پہنچتا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث میں عالم بے علم کی مثال شمع سے دی ہے کہ آپ جلے اور تمھیں روشنی و نفع پہنچائے، احمق وہ جو اس کے جلنے کے باعث اسے بجھا دینا چاہے اس سے یہ خود ہی اندھیرے میں رہ جائیگا۔ علماء کو چاہئے کہ اگر چہ خود نیت صحیحہ رکھتے ہوں عوام کے سامنے ایسے افعال جن سے ان کا خیال پریشان ہو نہ کریں کہ اس سے دو فتنے ہیں جو معتقد نہیں ان کا معترض ہونا غیبت کی بلا میں پڑنا عالم کے فیض سے محروم رہنا، اور جو معتقد ہیں اُن کا اس کے افعال کو دستاویز بنا کر بے علم نیت خود مرتکب ہونا ، عالم فرقہ ملامتیہ سے نہیں کہ عوام کو نفرت دلانے میں اُس کا فائدہ ہو مسند ہدایت پر ہے، عوام کو اپنی طرف رغبت دلانے میں اُن کا نفع ہے، حدیث میں ہے ( راس العقل بعد الایمان بالله التودد الى الناس)) ترجمہ: ایمان ((راس باللہ کے بعد سب سے بڑی عقلمندی لوگوں کے ساتھ محبت کرنا ہے۔
(شعب الایمان ، ج 8، ص 255 ، دار الكتب العربي بيروت)
دوسری حدیث صحیح میں ہے رسول اللہ صل اللہ تعلی علیہ وسلم فرماتے ہیں (بشروا ولا تنفروا )) ترجمہ: محبت پھیلا و نفرت نہ پھیلاؤ۔
(صحیح البخاری ، ج 1 ، ص 16 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
احیاناً ایسے افعال کی حاجت ہو تو اعلان کے ساتھ اپنی نیت اور مسئلہ شریعت عوام کو بتا دے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 97

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 513
مزید پڑھیں:مسجد میں وظائف و ذکر بلند آواز سے کرنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top