:سوال
زید عید الاضحیٰ میں بعد اختتام نماز منبر پر گیا اورخطبہ شروع کیا، اثنائے خطبہ اولی میں مقتدیوں سے کہا کہ آپ لوگ ذرا زور سے سبحان اللہ پڑھیں ، سب چپ رہے پھر دوبارہ سہ بارہ کہ کر لوں کو مجور کیا کہ یوں نہیں پڑھتے تم لوگوں کا منہ کیوں بند ہوگیا، تب لوگوں نے بآواز بلند سبحان اللہ پڑھنا شروع کیا پھر لبيك والله اكبر کہلوایا پھر لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھوایا پھر نعتیہ خطبہ پڑھ کر منبر پر بیٹھا اور اٹھ کر خطبہ شروع کیا، ابھی خطبہ ثانیہ تمام ہونے نہ پایا تھا کہ لوگوں کو کھڑے ہو کر یا نبی سلام عليك يا رسول سلام عليك پڑھنے کو کہا، چنانچہ لوگوں نے اٹھ کر زور زور سے یا نبی سلام علیك پڑھا۔ اس کا یہ فعل کیسا ہے؟
:جواب
حالت خطبہ میں کلام اگر چہ ذکر ہو مطلقاً حرام ہے۔ ۔ امام نے جو کچھ کیا سب بدعت شنیعہ سینہ ہے، ان جاہلوں کا وبال بھی اس پر بغیر اس کے کہ ان کے وبال میں کمی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم فرماتے ہیں
(من دعا إلى هدى كان له من الاجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الائم مثل اثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا)
جس نے کسی اچھی بات کی طرف بلایا اس کو اتباع کرنے کے اجر کی مثل اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی اور جس نے برائی کی طرف بلایا اس پر گناہ ہوگا اتباع کرنے والوں کی مثل، اور ان کے گناہ میں بھی کمی نہ ہوگی۔
صیحح مسلم ، ج 2 میں 341 اور محمد اصح المطالع ، کراچی)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 600