:سوال
زید علمائے حاضرہ کی تحقیق و ثبوت شہادت صحیح جان کر منگل کو دس ذی الحجہ یقینی جان کر عید الاضحی کی امامت کراتا ہے لیکن شب سہ شنبہ کو ایک بڑے متدین مستند عالم تشریف لائے اور انھوں نے ثبوت رؤیت صحیح نہ جان کر منگل کو عید نہیں کی ، اس عالم نے لوگوں سے کافی کوشش کرائی گئی کہ کسی صورت سے مجھ کو ثبوت رؤیت معلوم ہو جائے تو میں بھی عید کروں مگر کسی سے پتا نہیں چلا جن کے پاس ثبوت گزرا وہ اس قدر فرما کر بس ہو گئے کہ مجھے سچا جانتے ہیں تو عید کریں ورنہ نہ کریں، اس وجہ سے ایک عالم صاحب نے عید نہیں کی، زید امامت و خطبہ سے فارغ ہو کر یوں کہتا ہے کہ دینی بھائیو! آج عید ہے، اور نماز بھی پڑھئے مگر قربانی جو کہ دس گیارہ بارہ کو جائز ہے بجائے منگل کے احتیا طا بدھ کو کرو۔
اس آخری فقرہ پر لوگوں نے سوال کیا کہ احتیاط کا کیا مطلب ہے؟ تو زید نے جواب دیا کہ اگر آج قربانی کرو تو جن علماء نے عید نہیں کی وہ فرمائیں گے کہ قربانی نہیں ہوئی اور اگر بدھ کو کرو گے تو سب بالاتفاق فرمائیں گے کہ صحیح ہے اور اختلاف سے بچنا اولی۔ زید کا اس طرح اعلان کرنا جرم ہے یا نہیں؟ اگر جرم نہیں تو اسے اس بات پر ذلیل کرنا کیسا ہے؟
:جواب
زید اس فقرہ کے سبب محرم شرعی نہیں کہ احتیاط کرنے اور اختلاف معتبر شرعی سے بچنے کا حکم شرع مطہر میں ہے اتنی بات پر جو اسے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اچھا کام نہیں کرتے بلکہ گناہ کے ساعی ہیں۔ رسول اللہ صل للہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
(كل المسلم على المسلم حرام ماله وعرضه ودمه حسب امرء من الشرع ان يحقر اخاه المسلم)
مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے اُسکا مال ، اُس کی آبرو، اس کا خون، آدمی کے ہد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔
مزید پڑھیں:نمازعید الاضحی سے پہلے کچھ نہ کھانا سنت ہے یا نہیں؟
البتہ وہ نماز کہ پڑھی اس میں بہت شقوق ہیں جن میں سے ملخص یہ کہ اگر وہ جن کو علمائے حاضرہ کہا رسمی علماء ہیں نہ کہ فقیہ ماہرجن کے فتوے پر اعتماد جائز ہو، ان کی تحقیق پر وثوق جائز نہ تھا اور اگر اس وقت تک ان کی بات زید کے حق میں لائق وثوق تھی اور جب دوسرے عالم جن کو بڑے متدین مستند عالم کہا ہے انھوں نے وہ ثبوت صحیح نہ جانا تو زید کو اگلوں کے بیان پر وثوق نہ رہا، اور سہ شنبہ (منگل) کو دسویں ہونا بے ثبوت ہو گیا، پھر نماز پڑھی تو نماز ہی نہ ہوئی کہ نماز کے لئے جس طرح وقت شرط ہے یونہی اعتقاد مصلی (نمازی) میں وقت آ جانا شرط ہے مثلا اگر صبح کی نماز پڑھی اور اس طلوع صبح میں شبہ تھا نماز ہوئی اگر واقع میں صبح ہوگئی ہو۔
اور اگر وہ قابل وثوق تھے اور اسے وثوق ہی رہا تو قربانی میں احتیاط کی کیا حاجت تھی، اور تھی تو کیا نماز میں احتیاط در کار نہ تھی، عید الاضحیٰ کی نماز بھی بارھویں تک ہو سکتی ہے اگر چہ بلا عذر تا خیر مکروہ ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 594