:سوال
کیا زکوۃ کی رقم یتیم خانہ کی خریداری میں لگ سکتی ہے؟ اسی طرح کیا کسی شخص کے دینی یا دنیوی مقدمہ میں خرچ کی جاسکتی ہے؟
:جواب
یتیم خانہ کی خریداری میں روپیہ لگا دینے سے زکوۃ ہرگز ادا نہ ہو گی
لانه ان كان وقفا والزكوة تمليك فلا يجتمعان
( کیونکہ یتیم خانہ اگر وقف ہے اور زکوۃ میں تملیک ہوتی ہے لہذا ان دونوں کا اجتماع نہیں ہو سکتا۔)
نہ کسی غنی کو صرف مقدمہ کے لیے دینے سے ادا ہو سکے اگر چہ وہ مقدمہ مذہبی دینی ہو فان الغنى ليس بمصرف ( كر غنی زکوة کا
مصرف نہیں ہے نہ کسی فقیر نہ مسکین کے دینی خواه دنیوی مقدمہ میں وکیلوں، مختاروں کو دینے یا اور خرچوں میں اٹھانے سے ادا ممکن، جب تک فقیر کو دے کر اُس کے قبضے کے بعد اُس سے لے کر صرف نہ کیا جائے
فان الصدقة لا تحصل الا بتمليك مصرفها ولا تتم الا بقبضة
( کیونکہ صدقہ تب ادا ہو گا جب کسی مصرف کو مالک بنایا جائے گا اور تملیک کا اتمام قبضہ کے بغیر نہیں ہو سکتا )
پس اگر اس قسم کے معاملات میں اٹھانا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو شخص شرعا مصرف زکوۃ ہے اسے بہ نیت زکوۃ دے کر اُس کا قبضہ کرا دیں پھر وہ اپنی طرف سے اپنے آپ خواہ اسے دے کر خریداری یتیم خانہ خواہ کسی دینی مقدمہ غیر عہ امور خیر میں لگا دے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 262