:سوال
میں نے دو سوروپے کے پرا میسری نوٹ ڈاک خانے سے خریدے، اب اگر مجھے روپے کی ضرورت ہو تو فورا وصول نہیں ہو سکتے جب تک کہ کوئی گا ئک نہ مل جائے یا سال میں ملے، اس رقم پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
:جواب
پرامیسری نوٹوں کا یہ قاعدہ ہے کہ روپیہ گورنمنٹ کو دے دیا جاتا ہے جس پر وہ یہ نوٹ دیتی ہے اب یہ رو پی کبھی واپس نہ ملے گا نہ خود اصل مالک لے سکتا ہے نہ اس کا وارث نہ اس کا کوئی قائم مقام، ہاں گورنمنٹ اس روپے چھ آنے فیصدی ماہوار کے حساب سے ہمیشہ سود دے گی تو یہ نوٹ نوٹوں کی طرح خود مال نہیں بلکہ سند قرض ہیں لہذا اس پر گورنمنٹ سود دیتی ہے اور عام نوٹ خزانے سے خریدے جائیں تو ایک پیسہ سود نہ دے گی کہ وبیع تھی معاوضہ تمام ہو گیا ہے اور یہاں قرض ہے اور عام نوٹ خزانے سے خریدے جائیں تو ایک پیسہ قرض رہا اور وہ قرض کسی طرح واپس نہیں مل سکتا تو قرض مردہ ہوا اور قرض مردہ پر زکوۃ نہیں، نہ ان نوٹوں کا بیچنا جائز کہ وہ حقیقۂ غیر مدیون کے ہاتھ دین کی بیع ہے اور وہ جائز نہیں تو ان کوبیع کر جو روپیہ لے گا اس کے لیے خبیث ہوگا اور اس پر فرض ہو گا کہ جس سے لیا تھا اسے واپس دے اور اس بیع فاسد کو فسخ کرے تو زکوۃ ان نوٹوں پر ہے کہ یہ مال نہیں تو اس روپیہ پر جو انھیں بیچ کر ملے گا یہ تمام و کمال خبیث ہے، نہ اس روپیہ پر جو گورنمنٹ کو قرض دے کر یہ نوٹ لیے تھے کہ وہ قرض مردہ ہے جو کبھی واپس نہ ملے گا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 142