ماہ رمضان کبھی موسم گرما میں ہوتا ہے کبھی موسم سرما کبھی موسم بہار میں کبھی برسات میں ، ایسا کیوں ہے؟
سوال
ماہ رمضان کبھی موسم گرما میں ہوتا ہے کبھی موسم سرما کبھی موسم بہار میں کبھی برسات میں ، ایسا کیوں ہے؟
جواب
موسموں کی تبدیلی خالق عز و جل نے گردش آفتاب پر رکھی ہے مثلاً تحویل برج حمل سے ختم جوز ا یک فصل ربیع ہے، پھر تحویل سرطان سے ختم سنبلہ تک گرمی، پھر تحویل میزان سے ختم قوس تک خریف، پھر تحویل جدی سے ختم حوت تک جاڑا ( سردیاں)، یہ آفتاب کا ایک دور ہے کہ تقریبا 365 دن اور پونے چھ گھنٹے میں کہ پاؤ دن کے قریب ہوا پورا ہوتا ہے۔ اور عربی شرعی مہینے قمری ہیں کہ ہلال سے شروع اور 29 یا 30 دن میں ختم ہوتے ہیں۔
یہ بارہ مہینے یعنی قمری سال 354 یا 355 دن کا ہوتا ہے تو شمسی سال سے دس گیارہ دن چھوٹا ہے، سمجھنے کے لیے کسرات چھوڑ کر شمسی سال 365 قمری 355 میں رکھے کہ دس دن کا فرق ہوا، اب فرض کیجئے کہ کسی سال یکم رمضان شریف یکم جنوری کو ہوئی تو آئندہ سال 22 دسمبر کو یکم رمضان ہوگی کہ قمری 12 مہینے 355 دن میں ختم ہو جائیں گے اور شمسی سال پورا ہونے کو ابھی دس دن اور درکار ہیں، پھر تیسرے سال یکم رمضان 12 دسمبر کو ہوگی، چوتھے سال یکم دسمبر کو ہوگی، تین برس میں ایک مہینہ بدل گیا، پہلے یکم جنوری کو تھی اب یکم دسمبر کو ہوئی، یونہی ہر تین برس میں ایک مہینہ لے گا اور رمضان المبارک ہر شمسی مہینہ میں دورہ فرمائے گا۔
بعینہ یہی حالت ہندی مہینوں کی ہوگی ، اگر وہ لوند نہ لیتے ، انھوں نے سال رکھا کسی اور مہینے لیے قمری، تو ہر برس دس دن گھٹ گھٹ کر تین سال بعد ایک مہینہ گھٹ گیا، لہذا ہر تین سال پر وہ ایک مہینہ مکرر کر لیتے ہیں تا کہ شمسی سال سے مطابقت رہے، ورنہ کبھی جیٹھ جاڑوں میں آتا اور پوس گرمیوں میں۔
بلکہ نصاری جنہوں نے سال و ماہ سب شمسی لیے اگر یہ چوتھے سال ایک دن بڑھا کر فروری 20 کا نہ کرتے تو اُن کو بھی یہی صورت پیش آتی کہ کبھی جون کا مہینہ جاڑوں میں ہوتا اور دسمبر گرمیوں میں، یوں کہ سال 365 دن کالیا اور آفتاب کا دورہ ابھی چند گھنٹے بعد پورا ہو گا کہ جس کی مقدار تقریبا چھ گھنٹے تو پہلے سال شمسی سال دورہ یافتہ سے 8 گھنٹے پہلے ختم ہوا دوسرے سال 12 گھنٹے پہلے، تیسرے سال 18 گھنٹے پہلے، چوتھے سال تقریبا 24 گھنٹے، اور 24 گھنٹے کا ایک دن رات ہوتا ہے
لہذا ہر چوتھے سال ایک دن بڑھا دیا کہ دورہ آفتاب سے مطابقت رہے لیکن دورہ آفتاب پورے چھ گھنٹے زائد نہ تھا بلکہ چوتھے تقریبا پونے چھ گھنٹے تو چوتھے سال پورے ۲۴ گھنٹے کا فرق نہ پڑا تھا بلکہ تقریبا ۲۳ گھنٹے کا اور بڑھا لیا ایک ایک کہ ۲۴ گھنٹے ہے، تو یوں ہر سال میں شمسی سال دورہ آفتاب سے کچھ کم ایک گھنٹہ بڑھے گا، سو برس بعد تقریبا ایک دن، لہذا صدی بعد گھٹا کر پھر فروری ۲۸ دن کا کر لیا، اسی طرح اور دقیق کسرات کا حساب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 349

READ MORE  Fatawa Rizvia Jild 01, Fatwa 08 PDF
مزید پڑھیں:سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top