:سوال
زید کہتا ہے کہ یہ صحابہ کرام محبت تعظیم میں ہم سے زیادہ تھے، ثو اب ہوتا تو وہی کرتے، مگر یہ نماز ان سے منقول نہیں۔
:جواب
حضرات منکرین کا یہ کہنا کہ صحابہ تابعین سے منقول نہیں، صحابہ محبت و تعظیم میں ہم سے زیادہ تھے، ثو اب ہوتا تو وہی کرتے ۔
اولا : وہی معمولی باتیں ہیں جن کے جواب علمائے اہلسنت کی طرف سے ہزار ہزار بار ہو چکے جسے آفتاب روشن پر اطلاع منظور ہو، ان کی تصانیف شریفہ کی طرف رجوع لائے ۔ ( پھر اس موضوع پر مطالعہ کرنے کے لئے خصوصی طور پر امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ کی دو تصانیف (1) اصول الرشاد لقمع مباني الفساد (۲) اذاقة الاثام لما نعي عمل المولد والقيام ، اور اپنے دور سائل (1) اقامة القيامة على طاعن القيام لبى تهامة صلى الله تعالى عليه وسلم (۲) منير العين في حكم تقبيل الابهامین، کے نام بیان فرمائے)۔
مزید پڑھیں:حدیث توسل حجت ہے یا نہیں؟
ثانیا: یہاں تو ان جہالات کا کوئی محل ہی نہیں، یہ نماز ایک عمل ہے کہ قضائے حاجات کے لئے کیا جاتا ہے اور اعمال مشائخ میں تجدید واحداث کی ہمیشہ ابازت ، شاہ ولی اللہ ہوامع میں لکھتے ہیں” اجتهاد را اختراع اعمال تصریفیه راه گشاده اسلام به استخراج اطباء نسخهائی قرابادین را این فقیر را معلوم شده است که در وقت صبح صادق تا اسفار نشستن و چشم را بآن نور د وختن و یا نور را گفتن تا هزار بار کیفیت ملکیه راقت میدهد احادیث نفس را می نشاند” ترجمہ: جاری اعمال میں اجتہاد سے اختراع کا راستہ کشادہ ہے جیسا کہ طبیب حضرات کے ہاں قرابادین کے نسخوں میں ہے اس فقیر کو معلوم ہے کہ صبح صادق تا روشنی بیٹھنا اور منہ مشرق کی طرف کرنا اور آنکھوں کو صبح کے نور پر لگاتا اور نور ہزار بار تک پڑھنے سے قوت ملکیہ حاصل ہوتی ہے اور دل کی باتوں پر آگاہی ہوتی ہے۔
خود شاہ ولی اللہ اور ان کے والد شاہ عبدالرحیم صاحب اور ان کے فرزند ارجمند شاہ عبدالعزیز صاحب نے ہر گونہ حاجات کے لئے صد ہا اعمال بتائے کہ تازہ بنے تھے، جن کا پتا قرون ثلثہ میں اصلا نہ تھا بعض ان میں سے فقیر نے اپنے رسالہ منير العين في حكم تقبيل الابهامین میں ذکر کئے ، اور خود ان کی” قول الجمیل ”ایسی باتوں کی جائز وکفیل۔ جامع تر سنئے شاہ ولی اللہ کتاب الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں تصریح کرتے ہیں کہ انہوں نے جواہر خمسہ شیخ محمد غوث گوالیاری علیہ رحمۃ الباری کی سندیں اور اس کے اعمال کی اجازتیں اپنے استاذ علم حدیث مولانا ابوطاہر مدنی شیخ محمد سعید لاہوری مرحومین سے حاصل کیں ۔
مزید پڑھیں:حضرت عتبہ بن غزوان کا تقوی اور عدالت
(الانتباه نی سلاسل اولیا ءمترجم ارد و طریقہ شطار یہ ،ص 137 ،مطبوعہ آرمی برقی پریس ، دہلی)
حضرات منکرین ذرا مہربانی فرما کر جواہر خمسہ پر نظر ڈال لیں اور اس کے اعمال کا ثبوت و قرون ثلثہ سے دے دیں بلکہ اپنے اصول مذہب پر ان اعمال کو بدعت و شرک ہی سے بچالیں جن کے لئے شاہ ولی اللہ جیسے سنی، موحد ،محد ثانہ سند لیتے اور اپنے مشائخ حدیث و طریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہو کہ جواہر خمسہ میں کیا لکھا ہے” ناد علی هفت بار یاسه بار یا یکبار بخواند و آن اینست ناد عليا مظهر العجائب تجده عونالك في النوائب كل هم وغم سينجلی بولايتك يا علي يا علي يا على” ترجمہ : ناد علی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھو اور وہ یہ ہے پکار علی کو جو عجائب کے مظہر ہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مددگار پائے گا ، ہر پریشانی اور غم ختم ہو گا آپ کی مدد سے یا علی یا علی یا علی ۔
(فتوح الغیب ضیمہ جواہر خمسہ مترجم اردو ،ص 53 4 ،مطبعہ دارالاشاعت ، کراچی)
پھر امام اہلسنت علیہ الرحمہ بد مذہبوں سے زجراً ایک سوال بنا کر پوچھتے ہیں۔ مسئلہ: اللہ تعالی فرماتا ہے( وَ إِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ لَتُبَيِّنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ ) اور جب خدا نے عہد لیا ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی اسے صاف بیان کر دیں گے لوگوں سے اور چھپائیں گے نہیں۔ اب کیا فرماتے ہیں علمائے ملت نجد یہ هداهم الله تعالى إلى الملة الحنفية ( اللہ تعالیٰ ان کی ملت حنفیہ کی طرف رہنمائی کرے ) کہ جو لوگ ناد علی پڑھیں، پڑھائیں، سیکھیں ، اس کی سندیں دیں، اجازتیں لائیں ، اس کے سلسلے کو سلاسل اولیاء اللہ میں داخل کر جائیں، اس کے حکم دینے والوں کو ولی کامل بتائیں اپنا شیخ و مرشد مرجع سلسلہ بتائیں
ان میں بعض کو بلفظ ثقہ داعیان مشائخ او ان کی ملاقات کو بکلمۂ دستبوس تعبیر فرمائیں، انہوں نے غم و مصیبت و رنج و آفت کے وقت یا علی یا علی کہنار وارکھا یا نہیں اور اسے ورد وظیفہ بنایا یا نہیں اور غیر خدا کو خدا کا شریک فی العلم و شریک فی التصرف ٹھہرایا یا نہیں اور وہ اس سبب سے مشرک کافر، بے ایمان، جہنمی ہوئے یا نہیں پھر جو ایسوں کو اپنا پیر جانیں عالم اُمت، جامی سنت و قطب زماں و مرشد دوراں مانیں (جیسے جناب شاہ عبدالعزیز صاحب نے کیا )انہیں مقتدائے دین و پیشوائے مسلمین بتائیں ان کے علم و افضال و عرفان و کمال پر سچے دل سے ایمان لائیں ( جیسے تمام اصاغروا کا بر حضرات وہابیہ ) انہیں سید الحکما سيد العلما وقطب المحققين، فخر العرفاء المکملين اعلمہم بالله وقبلہ ارباب تحقیق و کعبہ اصحاب تدقیق وقدوة اولیا وز بده ارباب صفا، بلکہ امام معصوم و صاحب و وحی تشریعی ٹھہرائیں (جیسے میاں اسمعیل دہلوی نے ان کو لکھا ) ان سب صاحبوں کی نسبت کیا حکم ہے؟
یہ حضرات ایک مشرک شرک جو ( شرک کا طالب ) ، شرک پسند، شرک آموز کو پیر و پیشوا وامام و مقتدا بنا کرسید العلماء و مقبول خدا بنا کر خود بھی کافر مشرک و مستحق عذاب الیم و مہلک ہوئے یا نہیں اور ان پر بھی مسئلہ الرضاء بالكفر كفر ( کفر پر رضا مندی کفر ہے ) ، ومسئلہ من شك في كفره و عذابه فقد کفر ( جس نے اس کے کفر اور اس کے عذاب پر شک کیا وہ کافر ہو گیا ) حکم آیہ کریمہ ﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فانہ مِنْهُمْ ﴾ ( تم میں سے جو جس سے محبت کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہوگا )۔ وحدیث صحیح” المرء مع من احب ” ( آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے )
(صحیح البخاری ، ج2،ص 911 ،قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ صحابہ کرام سے منقول نہیں
کا حکم ) جاری ہوگا یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔)
ثالثا: خیر صلوة الاسرار شریف ( نماز غوثیہ) تو ایک عمل لطیف ہے کہ مبارک بندہ اپنے حصول اغراض و رفع اعراض کے لئے پڑھتا ہے مزاج پر سی ان حضرات کی ہے جو خاص امور ثواب و تقرب رب الارباب میں جومحض اسی نیت سے کئے جاتے ہیں ہمیشہ تجدید و اختراع کو جائز مانتے اور ان محدثات کو ذریعہ وصول الی اللہ (اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ) جانتے ہیں وہ کون شاہ ولی اللہ شاه عبدالعزیز ، مرزا مظہر جانجاناں، شیخ مجددالف ثانی ، مولوی اسمعیل دہلوی، مولوی خرم علی بالہوری و غیر ہم جنہیں منکرین بدعتی وگمراہ کہیں تو کس کے ہو کر رہیں، خود شاہ ولی اللہ قوال الجمیل میں اپنے اور اپنے پیران مشائخ کے آداب طریقت واشغال ریاضت کی نسبت صاف لکھتے ہیں ” لم يثبت تعين الاداب ولا تلك الاشغال “ ترجمہ: یہ خاص آداب و اشغال نبی صلی الله تعالی علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوئے۔
(القول الجمیل ،ص 173 ،مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)
شاہ عبد العزیز صاحب حاشیہ قول الجمیل میں فرماتے ہیں” اسی طرح پیشوایان طریقت نے جلسات و ہیات واسطے اذ کار مخصوصہ کے ایجاد کئے ہیں مناسبات مخفیہ (مخفی مناسبتوں ) کے سبب سے جن کو مرد صافی الذہین اور علوم حقہ کا عالم دریافت کرتا ہے (الی قولہ ) تو اس کو یا د رکھنا چاہئے
(ا شفاء العلیل ترجمہ قول الجمیل،ص 52 ،مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)
مولوی خرم علی صاحب مصنف نصیحۃ المسلمین اسے نقل کر کے لکھتے ہیں یعنی ایسے امور کو مخالف شرع یا داخل بدعات سیئہ نہ سمجھنا چاہئے جیسا کہ کم فہم سمجھتے ہیں
(ا شفاء العلیل ترجمہ قول الجمیل،ص 52 ،مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)
میاں اسمعیل دہلوی صراط مستقیم میں لکھتے ہیں ”اشغال مناسبه هر وقت و ریاضات ملائمه هر قرن جدا جدا می باشند ولهذا محققاد هر وقت از اکابر هر طرق در تجدید اشغال کوششها کرده اند بناء علیه مصلحت دید وقت چنان اقتضا كرد كه يك باب از یه کتاب برائی بیان اشغال جدیده که مناسب این وقت ست تعیین کردہ شود الخ ”ترجمہ: ہر وقت کے مناسب وظائف اور ہر زمانہ کے لائق ریاضتیں جدا جدا ہیں لہذا ہر زمانہ کے محققین نے ہر سلسلہ کے اکابرین سے نئے وظائف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس بنا پر میں نے مصلحت دیکھی کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اس کتاب کا ایک باب نئے وظائف واعمال میں جو اس وقت کے مناسب ہوں، کے لئے معین کروں۔
مزید پڑھیں:کیا محبوبان خدا کی تعظیم ضروری ہے؟
(صراط مستقیم ،ص 7 ،مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، لا ہور )
امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس مقام پر اوپر جن کے نام گنوائے ہیں ان کی کتابوں سے متعد د عبارتیں نقل فرمائیں آخرمیں فرماتے ہیں) اب خدا جانے یہ حضرات بدعتی کیوں نہ ہوئے اور انہیں خاص ان امور دینیہ میں جو محض تقرب الی اللہ کے لئے کئے جاتے ہیں نئی نئی باتیں جو قرآن میں نہ حدیث میں نہ صحابہ میں نہ تابعین میں، نکالنی اور عمل میں لائی اور ان سے امید وصول الی اللہ رکھنی کس نے جائز کی۔
(پھرز جرا ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں )
مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ”من سئل عن علم فكتمه الجمه الله يوم القيمة بلجام من نار ” جس سے کوئی علمی بات پوچھی جائے وہ اسے چھپائے اللہ تعالی روز قیامت اسے آگ کی لگام دے گا۔
(جامع الترمذی ، ج 2 ،ص 89 ،مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ ،دہلی )
اب کیا فرماتے ہیں علمائے ملت اسمعیلیہ هذهم الله تعالى إلى الشريعة الحقة الابراهيمية ( الله تعالى شريعت حقہ ابراہیمیہ کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے) کہ دین خدا میں ایسی نئی نئی باتیں نکالنا اور یہ اقرار کر کے کہ کتاب وسنت سے اس کا ثبوت نہیں ان پر عمل کرنا اور انہیں موجب ثواب و قرب رب الارباب سمجھنا بدعت سیئہ شنیعہ ہے یا نہیں؟ اور یہاں حدیث ” من أحدث في أمرنا ماليس منه فهو رد ”( جس نے ہمارے دین میں نئی بات نکالی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے ) و حدیث ”كل بدعة ضلالة ” ( ہر بدعت گمراہی ہے ) و”كل ضلالة في النار ” ( اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ) وحدیث” شر الأمور محدثاتها” ( سب سے بری بات نئے امور ہیں ) وحدیث ”اصحاب البدع كلاب اهل النار ” ( بدعت والے جہنم کے کتے ہیں ) وارد ہوں گی یا نہیں
اور جن صاحبوں نے یہ باتیں ایجاد فرمائیں آپ کیں، اوروں سے کرائیں، کتابوں میں لکھیں، زبانی بتائیں، حسب تصریح تقویۃ الایمان ان کے اصل ایمان میں خلل آیا یا نہیں، اور وہ بدعتی ، فاسق ، مخالف سنت قرار پائے یا نہیں، اور ان سے کہا جائے گا یا نہیں کہ صحابہ ثواب وحسنات پر تم سے زیادہ حریص تھے بھلائی ہوتی تو وہی کر جاتے، اور میاں بشیر قنوجی یہاں بھی ہیائت عبادات کو توفیقی بتائیں گے یا نہیں، پھر جو لوگ ان صاحبوں کو امام و پیشوا جانتے اور ان کی مدح و ستائش میں حد سے زیادہ غلو کرتے ہیں ( جیسے شاہ ولی اللہ مداح و معتقد مرزا مظہر صاحب اور شاہ عبد العزیز وصاف و مرید شاہ ولی اللہ صاحب اور مولوی اسمعیل غلام و باد خوان ہر دو شاہ صاحب اور تمام حضرات و با بیہ مداحین و معتقدین جمیع صاحبان مذکورین ) ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے؟
آیا بحکم حدیث” وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الاسلام “ ( جس نے بدعت والے کی تعظیم کی اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد کی )یہ سب کے سب قصر اسلام کے ڈھانے والے ہوئے یا نہیں، یا یہ احکام صرف مجلس میلا دو غیر ہ انہیں امور کے لئے ہیں جن میں محبوبان خدا کی محبت وتعظیم ہو باقی سب حلال و طیب، اور شاہ عبدالعزیز صاحب نے کہ تصور برزخ کو اتنا پسند کیا کہ اسے سب سے زیادہ قریب تر راستہ خدا کا بتایا اور مولوی خرم علی صاحب نے اسے نقل کر کے مسلم رکھا یہ دونوں صاحب مع اصل کا تب یعنی شاہ ولی اللہ صاحب پھر ان صاحبوں کے معتقدین و مداح سب کے سب مشرک و شرک پرست ٹھہرے یا نہیں، یا یہ حضرات احکام شرع سے مستثنی ہیں، اور تقویۃ الایمان وتذکیر الاخوان وغیرہما کی آیتیں حدیثیں صرف مؤمنین اہل سنت کو جو خاندان عزیزی سے نہ ہوں معاذ اللہ مشرک بد عتی بنانے کے لئے اتری ہیں ، بینو اتو جروا۔ سبحان اللہ ان صاحبوں کے یہ احداث واختراع سب مقبول ہوں ، اور نا جائز و بدعت ٹھہرے تو وہ نماز جو حضو ر پر نورغوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے قضائے حاجات کے لئے ارشاد فرمائی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 620 تا 630