: سوال
نماز تہجد جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور دیگر ایام مخصوصہ مثلاً یوم عاشورا، شب قدر وغیرہ میں نفل جماعت سے جائز ہیں یا نہیں ؟
: جواب
تراویح و کسوف واستسقاء کے سوا جماعت نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب معلوم و مشہور اور عامہ کتب مذہب میں مذکور و مسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ۔ تدائی ایک دوسرے کو بلانا جمع کرنا اور اسے کثرت جماعت لازم عادی ہے اور اس کی تحدید امام نسفی وغیرہ نے کافی میں یوں فرمائی کہ امام کے ساتھ ایک دو شخص تک بالاتفاق بلا کراہت جائز اور تین میں اختلاف اور چار مقتدی ہوں تو بلا تفاق مکروہ، یہ تحدید امام شمس الائمہ سے منقول ہے۔ اور اصح یہ ہے کہ تین مقتدیوں میں بھی کراہت نہیں۔ انہیں امام شمس الائمہ سے خلاصہ وغیرہ میں یوں منقول کہ تین مقتدیوں تک بالاتفاق کراہت نہیں چار میں اختلاف ہے اور اصح کراہت۔
بالجملہ دو مقتدیوں میں بالا جماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ، اور تین اور چار میں اختلاف نقل و مشائخ، اور اصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں چار میں ہے۔ تو مذہب مختار یہ نکلا کہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں۔ پھر اظہر یہ کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولى لمخالفة التوارث ( کیونکہ یہ طریقہ توارث کے خلاف ہے )نہ تحریمی کہ گناہ و ممنوع ہو۔ صلوة الرغائب (رجب کی پہلی شب جمعہ کو باجماعت ادا کئے جانے والے نوافل ) وصلوۃ البرائة (شعبان کی پندرہویں شب کو باجماعت ادا کئے جانے والے نوافل ) وصلوۃ القدر ( شب قدر میں باجماعت ادا کئے جانے نوافل ) کہ رجماعات کثیرہ کے ساتھ بکثرت بلا د اسلام میں رائج تھیں متاخرین کا اُن پر انکار اس نظر سے ہے کہ عوام سنت نہ سمجھیں۔
اور بعض ناس ( بعض لوگوں ) کا غلو و افراط مسموع نہیں اور حدیث بروایت مجاہیل آنا موجب وضع نہیں نہ وضع حدیث موجب منع عمل ہے، عمل بالحدیث الموضوع اور عمل بمانی الحدیث الموضوع میں زمین آسمان کا بل (فرق ) ہے۔ خصوصاً ان کا فعل بجماعت اجلہ اعاظم اولیائے کبار و علمائے ابرارحتی کہ ایک جماعت تابعین کرام وائمہ مجتہدین اعلام سے ثابت و منقول ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 430