:سوال
یہاں ہم لوگوں میں ایک حافظ قرآن شریف بہت عمدہ تلاوت کرتے ہیں سب جوانوں کا مشورہ ہوا کہ حافظ صاحب ہم کو پورا قرآن سنائیں ، اب آپ بتائیں کہ کیا کریں، نماز عشاء سے فارغ ہو کر نوافل میں ختم کریں یا عشاء کے فرضوں میں زیادہ تلاوت کر لیں؟ یہ جگہ پہاڑ ہے ایک قلعہ ہے جس میں ہم قریب سو جوانوں کے رہتے ہیں۔
:جواب
استسقاء کے سوا ہر نماز نفل و تراویح کو کسوف کے سوا ہر نماز سنت میں ایسی جماعت جس میں چار یا زیادہ شخص مقتدی بنیں مکروہ ہے اور وتروں کی جماعت غیر رمضان میں اگر اتفاقاً کبھی ہو جائے تو حرج نہیں مگر التزام کے ساتھ وہی حکم ہے کہ چار یا زیادہ مقتدی ہوں تو کراہت ہے اور فرضوں میں قرآت طویل قدر سنت سے اس قدر زائد کہ مقتدیو ر زائد کہ مقتدیوں میں سے کسی شخص
پر بار گزرے سخت نا جائز و گناہ ہے یہاں تک کہ اگر ہزار مقتدی ہیں اور سب خوشی سے راضی ہیں کہ قرآت قدر سنت سے زیادہ پڑھی جائے مگر ایک شخص کو نا گوار ہے تو اسی ایک کا لحاظ واجب ہوگا اور قد رسنت سے بڑھانا گناہ ہوگا۔
:پس اگر اس کا بندو بست منظور ہو تو اس کی تین صورتیں ہیں
(1)
یہ کہ فرضوں کی دورکعت پیشیں ( پہلی دو رکعت ) میں قرآت ہو اس شرط پر کہ جماعت کے آدمی گنے بندھے ہوں اور وہ سب دل سے اس تطویل پر راضی ہوں کسی کو گراں نہ گزرے۔ اگر یہ معدود لوگ راضی ہوں مگر جماعت میں یہی معین نہیں اور لوگ بھی آ کر شریک ہو جاتے ہیں اور ان کا اس تطویل پر راضی ہونا معلوم نہیں تو جائز نہ ہوگا۔
مزید پڑھیں:عشاء کے آخری نفل بیٹھ کرنا پڑھنا بہتر ہے یا کھڑے ہو کر
(2)
سنتوں، نفلوں، وتروں میں حافظ قرآت کرے اور ہر بار مختلف لوگ مقتدی ہوں کہ کسی بار میں تین سے زیادہ مقتدی نہ ہوں مثلاً عشاء کے بعد دو سنتوں میں تین مقتدیوں کے ساتھ آدھا پارہ پڑھ لیا پھر وتروں میں دوسرے تین آدمی شریک ہو گئے آدھا ان میں پڑھا پھر نفلوں میں دوسرے تین مل گئے آدھا اب پڑھا۔ ھایا وتروں سے پہلے جتنے نفل چاہے امام نے مختلف تین تین آدمیوں کے ساتھ پڑھے کہ سو یا زیادہ شخص سب کو حصہ رسدا ایک قرأت طویل میں شرکت پہنچ گئی۔
(3)
سنتوں خواہ نفلوں میں سب مقتدی ایک ساتھ شریک ہو کر ایک ہی بار میں ساری قرآت سب سنیں مگر یوں کہ مقتدی سب یا تین سے جتنے زیادہ ہیں یوں منت مان لیں کہ میں نے اللہ تعالی کے لئے نذر کی کہ یہ رکعتیں اس امام کے ساتھ با جماعت ادا کروں اس صورت میں بھی کراہت نہ رہے گی اگر چہ کوئی ایسی پسندیدہ بات یہ بھی نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 426