:سوال
بغیر اذان واقامت کے محراب سے ہٹ کر جماعت ثانیہ قائم کرنا کیسا ہے؟
:جواب
صورت مستفسرہ میں جماعت ثانیہ بلا کراہت مطلقہ مطلقاً جائز و مباح عند اہل التحقیق ہے۔
:اولا: تکرار جماعت کے جواز وافضلیت کی وہ صورتیں سنئے جن میں اصلا نزاع کو گنجائش نہیں
(1)
جو مسجد شارع عام یا بازار یا اسٹیشن یا سرا کی ہے جس کے لئے اہل معین نہیں، وقت پر جو لوگ گزرے یا اترےیا آئے یا پڑھ گئے غرض کسی محلہ خاص سے خصوصیت نہیں رکھتی کہ وہاں کی معمولی جماعت وہی ہے اور وں کا آنا اتفاقی و عارضی ہے ایسی مسجد میں بالا جماع تکرار جماعت ہاذان جدید و تکبیر جدید ( نئی اذان و تکبیر کے ساتھ ) جائز بلکہ یہی شرعاً مطلوب ہے کہ نوبت بنوبت جو لوگ آئیں نئی اذان دا قامت سے جماعت کرتے جائیں اگر چہ (ایک نماز کے) وقت میں دس بیسں جماعتیں ہو جائیں۔
(2)
مسجد محلہ کہ ایک محلہ خاص سے اختصاص رکھتی ہے اس میں اقامت جماعت ( جماعت قائم کرنا ) انہیں کا حق ہے اگر ان کے غیر جماعت کر گئے تو اہل محلہ کو تکرار جماعت بلا شبہہ جائز ہے جیسے کہ نماز جنازہ ، حالانکہ اس کی تکرار اصلاً مشروع نہیں پھر بھی اگر غیر ولی بے اذن ولی پڑھا جائے اب ولی آئے اعادہ کا مجاز ہے کہ حق اس کا تھا۔
(3)
بعض اہل ہی جماعت کر گئے مگر بے اذان پڑھ گئے ۔
مزید پڑھیں:امام کی غیر موجودگی میں کسی اور کو امام بنانا کیسا؟
(4)
اذ ان بھی دی تھی مگر آہستہ، ان صورتوں میں بھی بعد کو آنے والے باذان جدید بروجہ سنت اعادہ جماعت کریں کہ جماعت معتبرہ وہی ہے جو اذان سے ہو اور اذان وہ جو اعلان سے ہو۔
(5)
محلے میں خفی و غیر حنفی دونوں رہتے ہیں پہلے غیر حنفی امام نے جماعت کر لی اور حنفیہ کو معلوم ہے کہ اس نماز میں ا س نے مذہب حنفی کے کسی فرض طہارت یا فرض صلوۃ یا شرط امامت کو ترک کیا ہے مثلاً چہارم سرسے کم کا مسح یا آب قلیل نجاست افتادہ (ایسا تھوڑا یعنی وہ دردہ سے کم پانی جس میں نجاست گری ہو ) سے وضو یا جسم یا کپڑے قدر درہم سے زیادہ منی یا صاحب ترتیب کا با وصف یاد و وسعت وقت بے ادائے فائتہ دقتیہ پڑھنا یا نماز وقت تنہا پڑھ کر پھر اسی نماز میں امامت کرنا تو ایسی حالت میں حنفیہ بلا شبہ اپنی جماعت جدا گانہ کریں کہ اگر چہ شرع ان جماعت کرنے والوں کے لئے اسے جماعت اوئی مانے مگر حنفی تو اس میں اقتدا نہیں کر سکتا اگر کرے تو نماز ہی نہ ہو۔
(6)
اس خاص نماز کا تو حال معلوم نہیں مگر اس امام کی بے احتیاطی اور فرائض میں ترک لحاظ مذہب حنفی ثابت ہے جیسے عامہ غیر مقلدین کہ خواہی نخواہی اہل حق سے مخالفت اور مذاہب اربعہ خصوصاً مذہب مہذب حنفیہ کی مضادت ( مخالفت ) پر حریص ہوتے ہیں جب بھی حنفیہ کو ان کی اقتدا گناہ و ممنوع ہے اپنی جماعت جدا کریں۔
مزید پڑھیں:تارک الجماعت کس کو کہتے ہیں؟
(7)
اس کی نسبت امور مذکورہ کی مراعات کا عادی ہونا نہ ہونا کچھ معلوم نہیں جیسے کوئی نا معلوم الحال شافعی مالکی حنبلی اس صورت میں بھی ان کی اقتدا خالی از کراہت نہیں تو جماعت ثانیہ کا فضل مبین (اس صورت میں بھی جماعت ثانیہ کی فضیلیت واضح ہے)۔
(8)
عادت مراعات بھی معلوم ہی سہی تاہم بتصریح ائمہ امام موافق المذہب کے پیچھے جماعت ثانیہ ہی افضل واکمل ، اور اسی پر حرمین محترمین و مصر و شام و غیر ہا بلا ددار الاسلام میں جمہور مسلمین کا عمل ۔
(9)
جس نے جماعت اولی کی فاسد العقیدہ بد مذہب بدعتی تھا مثلاً وہابی یا تفضیلی یا معاذ الله امکان کذب الہی تعالی شانہ ماننے والا یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں کسی کو برا جاننے والا کہ عند التحقیق ایسوں کی اقتداء بکر اہت شدیدہ سخت مکروہ ہے۔
(10)
فاسق تھا جیسے شرابی ، زنا کار یا داڑھی منڈا سود خوار کہ یہ لوگ ان وہابیوں کذابیوں وغیر ہم بد مذہبوں کے مولویوں متقیوں سے بھی اگر چہ لاکھ درجہ بہتر حال میں ہیں پھر بھی ان کی اقتدا شرعاً بہت نا پسند۔
(11)
امام اولی نرا بے علم جاہل نماز و طہارت کے مسائل سے غافل تھا جیسے اکثر گنوار غلام و غیر ہم عوام کہ ایسے کی امامت بھی کراہت انضمام ( کراہت سے ملی ہوئی ہے )
مزید پڑھیں:پاخانہ اٹھانے کا پیشہ کرنے والے کا مسجد اور جماعت میں شامل ہونا
(12)
قرآن مجید ایسا غلط پڑھتا تھا جس سے معنی فاسد ہوں مثلا ع یات، ط یات، س ، ص یاح، ہ یا ذ ،ز ، ظ میں تمیز نہ کرنے والے کہ آج کل اس دار الفتن ( فتنوں کے گھر) ہند میں اکثر بلکہ عام عوام بلکہ بہت بلکہ اکثر پڑھے لکھے بھی اس ہند میں بلا میں مبتلا ہیں۔ ۔ پھر خواہ بے خیالی بے احتیاطی یا سیکھنے میں بے پروائی یا زبان کی نادرستی کوئی سبب ہو مذہب معتمد پر صحیح خواں کی نماز اس کے پیچھے مطلقاً فاسد ہے اگر چہ ان میں بعض صور ( صورتوں ) میں مذہب متاخرین خود اس کی اپنی نماز کے لئے بہت وسعتیں دے۔ تو اگر یہی صورت صحت واقع ہو کر وہ جماعت اولی ٹھہر سے لا جرم صحیح خوانوں کو جماعت ثانیہ ہی کا حکم ملے ۔۔ غرض ایسی صورتیں جماعت ثانیہ کی خاص تاکید یا فضل مزید کی ہیں جن میں بالا جماع یا علی الاصح اصلا کلام کی گنجائش نہیں ۔
ضابطہ یہ ہے کہ جب جماعت اولی اہل مسجد یا اہل مذہب کی نہ ہو یا اپنے مذہب میں فاسدہ یا مکروہہ ہو تو ہمیں جماعت ثانیہ کی مطلقاً اجازت بلکہ در صورت کراہت ( کراہت کی صورت میں ) قصداً تفویت اولی ( جماعت اولی فوت کرنے ) کی رخصت جبکہ ثانیہ نظیفہ ( دوسری پاک صاف جماعت ) مل سکتی ہو اور در صورت فساد ( فساد کی صورت میں ) تو اس میں شرکت ہی سے صاف ممانعت اگر چہ ثانیہ بھی میسر نہ ہو۔ اب محل نظر صرف ایک صورت رہی کہ مسجد محلہ میں اہلِ محلہ نے باذان واقامت ( اذان واقامت کے ساتھ ) بروجہ سنت ( سنت طریقہ پر ) امام موافق المذہب( اپنے مذہب کے امام) سالم العقیدہ متقی مسائل داں صحیح خواں کے ساتھ جماعت اولی خالیہ عن الكراہۃ ادا کر لی پھر باقی ماندہ لوگ آئے انہیں دوبارہ اس مسجد میں جماعت قائم کرنے کی اجازت ہے یا نہیں، اور ہے تو بکراہت یا بے کراہت؟
اس بارے میں عین تحقیق ۔۔ یہ ہے کہ اس صورت میں تکرار جماعت با عادہ اذان ( اذان کے اعادہ کے ساتھ ) ہمارے نزدیک ممنوع و بدعت ہے ، یہی ہمارے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب مہذب و ظاہر الروایہ ہے۔ جس کا حاصل عند التحقیق کراہت اذ ان جدید کی طرف راجع نہ نفس جماعت کی طرف۔ اور اگر بغیر اس کے تکرار جماعت کریں تو قطعاً جائز و ر وا ہے اس پر ہمارے علماء کا اجماع ہوا ہے۔ پھر یہ جواز مطلقاً محض و خالص ہے یا کہیں کراہت سے بھی مجامع (ملا ہوا ہے ) ، اس میں صحیح یہ ہے کہ اگر محراب میں جماعت ثانیہ کریں تو مکروہ ، اور محراب سے ہٹ کر تو اصلا کراہت نہیں، خالص مبارح وماذون فیہ (اجازت یافتہ ) ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 113 تا 128