:سوال
جو شخص قواعد تجوید سے نا واقف ہو اس کو امام کیا جائے یا نہیں؟
:جواب
اگر ایسی غلطیاں کرتا ہے کہ معنی میں فساد آتا ہے مثلاً حرف کی تبدیل جیسے ع ط ص ح ظ کی جگہ ءت س
ہ ز پڑھنا کہ لفظ مہمل رہ جائے یا معنی میں تغیر فاحش راہ پائے یا کھڑا پڑا کی بد تمیزی کہ حرکات بڑھ کر حروف مدہ ہو جائیں اور وہی قباحتیں لازم آئیں، جس طرح بعض جہاں نستعین کو نستاعین پڑھتے ہیں کہ بے منی یا( لا الى اللهِ تُحْشَرُونَ ) بلام تا کید کو( لالی الله تحشرون) بلائے نافیہ کہ تغیر معنی ہے تو ہمارے ائمہ متقدمین کے مذہب صحیح و معتمد محققین پر مطلقاً خود اس کی نماز باطل ہے۔۔ اور جب اُس کی اپنی نہ ہوگی تو قواعد داں و غیر قواعد داں کسی کی اس کے پیچھے نہ ہو سکے گی۔
اور اگر غلطی یوں ہے کہ حرف بروجہ صحیح ادا نہیں کر سکتا جس طرح آج کل عام دہقانوں اور بہت شہریوں کا حال ہے تو اب جمہور متاخرین کا بھی فتوی اسی پر ہے کہ اس کے پیچھے صحیح خواں کی نماز باطل ۔۔ اور جب اس کی اپنی ( بھی ) نہ ہوگی۔
اور اگر عجزیوں ہے کہ سیکھنے کی کوشش نہ کی یا کچھ دنوں کر کے چھوڑ دی اگرلپٹا رہتا تو امید تھی کہ آجاتا جب تو ایسی غلطی ان کے نزدیک بھی خود اس کی اپنی نماز بھی باطل کرے گی۔
غرض ایسا شخص امام بنانے کے لائق نہیں۔
اور اگر ایسی غلطی نہیں کرتا جس سے فساد معنی ہو تو نماز خود اس کی بھی صحیح اور اس کے پیچھے اور سب کی صحیح، پھر اگر حالت ایسی ہے کہ تجوید کے امور ضرور یہ واجبات شرعیہ ادانہیں ہوتے جن کا ترک موجب گناہ ہے جیسے مد متصل بقدر ایک الف وغیرہ۔ ۔ جب بھی اُسے امام نہ بنایا جائے گا نماز اس کے پیچھے بشدت مکروہ ہوگی۔
اور اگر ضروریات سب ادا ہو لیتے ہیں صرف محسنات زائد ومثل اظهار اخفاوروم واشمام و تفخیم وترقیق وغیرہا میں فرق پڑتا ہے تو حرج نہیں، ہاں قواعد دان کی امامت اولی ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 489