:سوال
ضعیف احادیث فضائل میں معتبر ہیں، تو کیا کسی کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے بھی کارآمد ہیں؟
:جواب
فضیلت و افضلیت میں فرق ہے دربارہ تفصیل (کسی کو افضلیت دینے میں ) حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں۔
اقول جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افادات سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا ذہن نشین کر لیا ہے وہ اس فرق کو بنگا و اولین سمجھ سکتا ہے قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعت حق غیر غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الوجوه اندیشہ نہ ہو، فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں، جن بندگان خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح وثوابت سے معارضت نہ ہو حدیث ضعیف آئے اُس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ ان کا فضل تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدو زائد عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی خلاف بھی تو نہیں۔
مزید پڑھیں:سند حدیث قابل اعتماد نہ ہو لیکن بات تجربہ سے ثابت ہو تو حکم؟
بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عند اللہ بہتر وافضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسو ل جل جلالہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت ومحقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگا دینے میں محتمل کہ عند اللہ امر بالعکس (الٹا) ہو تو افضل کو مفضول بنایا، یہ تصریح تنقیص شان ( شان گھٹانا ) ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام ( حرام کو حلال کرنے کا فساد ) و تضیع حق غیر( غیر کے حق کو ضائع کرنے کا فساد ) دونوں در پیش کہ افضل کہنا حق اس کا تھا اور کہ دیا اس کو۔
یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو، پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے، جہاں عقائد حقہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو اور اس کے خلاف احادیث سقام وضعاف ( بیمار اور ضعیف روایات ) سے استناد کیا جائے ( سند پکڑی جائے ) ، جس طرح آج کل کے جہاں حضرات شیخین بھی اللہ تعالی عنہ پر تفصیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہ اکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادت شریعت و معاندت سنت ہے ۔ ولہذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا ۔
بلکہ انصافا اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرض باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کی تفضیل شیخین متواتر و اجماعی ہے اور متواتر واجماع کے مقابل احاد ہرگز نہ سُنے جائیں گے۔
مزید پڑھیں:کتب حدیث کے چار طبقات
ولہذا امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیر حدیث عرض على عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره قالوا فما اولت ذلك يا رسول الله ( صلى الله تعالی علیه وسلم قال الدین ( مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی الہ تعالٰی علیہ سلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ فرمایا دین ) فرماتے ہیں اگر ہم یہ تخصیص ان ( یعنی فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں لیکن اجماع اہلسنت و جماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے، تو ظن اس کا معارض کیسے ہو سکتا ہے
الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح بھی نا مسموع ۔
حيث قال ليست هذه المسألة يتعلق بها عمل فيلتفى فيها بالظن الذي هو كاف في الاحكام العلميةبل هي مسألة علمية يطلب فيها الیقین ۔
ان دونوں نے کہا کہ یہ مسلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہو جائے جواد کام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو قائم میں سے ہے اس کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 580