:سوال
مزار کے قریب ایک مرید کے کچھ مکانات تھے جو وہ آفس اور گودام وغیرہ کے لئے استعمال کرتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ زائرین وغیرہ بھی انہی میں قیام کرتے اور مجالس وغیرہ بھی قائم ہوئیں، اس مرید نے وہ مکانات بھی وقف نہیں کئے تھے، اب شیخ کی وفات کے بعد جب کہ وہ مکانات وغیرہ رہن ( گروی) رکھے ہیں، فرزند شیخ کا مطالبہ ہے کہ وہ ہمارے نام کر دو، تو کیا فرزند شیخ کا یہ مطالبہ صحیح ہے؟ اور کیا مرید کو اختیار ہے کہ وہ رہن کے ختم ہونے سے پہلے ان مکانات کو فرزند شیخ کے نام کر دے؟
:جواب
فرزند شیخ کا دعوی باطل ، اور اسے جبر ( زبردستی کرنے ) کا کوئی اختیار نہیں، زمین و مکان و مقبرہ سب ملک مرید ہیں اس کے ورثہ کے قبضے میں رہیں گے۔ مرید پر شیخ پر مالی استحقاق بمعنی وجوب شرعی بحیثیت شیخیت ( پیر ہونے کے اعتبار سے ) نہیں ، اگر چہ طریقۃ وہ اور اس کا مال سب گویا اس کے شیخ کا ہے، یا شریعۃ بوجوہ دیگر ( دیگر وجوہات کی بنا پر ) وجوب ہو سکتا ہے۔ فرزند شیخ کا یہ مطالبہ کرنا سوال ہے اور سوال کرنا حرام ہے، ہاں اگر مرید برضائے خود چاہے تو اپنا مال اس کے نام کر سکتا ہے، اگر چہ قبل ادائے دین مرتہن باذن مرتہن ( جس کے پاس قرض کے بدلے میں زمین وغیرہ گروی رکھی ہے، اس کا قرض ادا کرنے سے پہلے بھی نام کر سکتا ہے مگر اس کے لئے مرتہن کی اجازت ضروری ہے )۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 481