:سوال
ایک عید گاہ ایک بستی نما شہر میں بنی ہوئی ہے، حال میں کچھ اشخاص نے عید گاہ جن سے بہت نزدیک تھی، نفسانیت دنیوی کی وجہ سے عید گاہ میں نماز عید پڑھنا ترک کر دیا، اس سال ان کا ارادہ اسی میدان میں دوسری عیدگاہ کی تعمیر کا ہے، تو آیا ان چند اشخاص کو صورت مذکورہ بالا میں اپنی جدید گاہ کا ایسے مختصر شہر میں تعمیر کرنا از روئے شرع شریف درست ہے یا نا درست؟
:جواب
نماز عید ایک شہر میں متعددجگہ اگر چہ بالا تفاق روا ہے مگر ایک شہر کے لئے دو عید گاہ بیرون شہر مقرر کر نا زمان برکت نشان حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اب تک معہود نہیں، نہ زنہار اس میں شرع مطہر ودین منور کی کوئی مصلحت خصوصاً ایسی چھوٹی بستی میں تو اگر اس میں اس کے سوا کوئی حرج نہ ہوتا تو اسی قدر اس فعل کی کراہت کو بس تھا کہ محض بے ضرورت شرعی و مصلحت دینی خلاف متوارث مسلمین ہے اور ایسا فعل ہمیشہ مکروہ ہوتا ہے۔
جب یہ تعمیر مصلحت دینی سے خالی ہوئی اور اس میں کوئی مصلحت دنیوی نہ ہونا بدیہی ، تو محض عبث ہوئی اور ایسا ہر عبث نا جائز و ممنوع ہے۔
یہ عمارت بے حاجت کی تعمیر ہوئی اور ہر عمارت بے حاجت اپنے بنانے والے پر روز قیامت وبال ہے۔
مزید پڑھیں:فاسق قاضی کے پیچھے عید کی نماز ادا کرنا کیسا؟
جنگل میں بے حاجت شرعی ایک عمارت بنا کر کھڑی کر دینا اسراف ہوا اور اسراف حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ولا تسرفوا انه لا يحب المسرفین
ترجمہ: اور اسراف نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
صورت مستفسرہ میں یہ سب شناعتیں خود اس فعل بے معنی میں موجود تھیں اگر چہ اس کی تعمیر براہ نفسانیت نہ ہو اور جبکہ یہ بناء براہ نفسانیت ہے جیسا کہ بیان سوال سے ظاہر ، تو اس کا مذموم و مردود ہونا خود واضح و روشن ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 590