زکوۃ کو ساقط کرنے کے لیے خود مال ہبہ یا ہلاک کرنے کا حکم؟
:سوال
ایک غیر مقلد نے اپنی کتاب میں احناف پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام ابو یوسف آخر سال اپنامال اپنی بیوی کے نام ہبہ کر دیا کرتے تھے اور اس کا مال اپنے نام ہبہ کر لیا کرتے تھے تا کہ زکوۃ ساقط ہو جائے، یہ بات امام ابوحنیفہ سے کہی گئی تو جواب دیا کہ یہ ان کی فقہ کی جہت سے درست ہے، اس معاملے کو امام بخاری نے بھی صحیح بخاری میں لکھا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
:جواب
اولا
صحیح بخاری شریف میں اول تا آخر کہیں اس حکایت کا پتا نہیں کہ امام ابو یوسف اس کے عامل تھےا مام اعظم مصدق ہوئے ، امام بخاری نے صرف اس قدر لکھا کہ بعض علماء کے نزدیک اگر کوئی شخص سال تمام سے پہلے مال کوہلاک کو دے یا دے ڈالے یا بیچ کر بدل کے کہ زکوۃ واجب نہ ہونے پائے تو اس پر کچھ واجب نہ ہوگا، اور ہلاک کر کے مر جاتے تو اس کے مال سے کچھ نہ لیا جائے گا، اور سال تمام سے پہلے اگر ز کوۃ ادا کر دے تو جائز وروا۔
ثانياً
ہمارے کتب مذہب نے اس مسئلہ میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہا اللہ تعالیٰ کا اختلاف نقل کیا اور صاف لکھ دیا که فتوی امام محمد کے قول پر ہے کہ ایسا فعل جائز نہیں۔
ثالثاً
بلکه خزانة المفتین با ین میں فتاوی کبری سے ہے
الحيلة في منع وجوب الزكوة تكره بالاجماع
” ترجمہ: اور وجوب زکوۃ میں رکاوٹ کے لیے حیلہ کرنا بالا جماع مکروہ ہے۔
(خزانه المفتين )
مزید پڑھیں:مصارف زکوۃ میں عزیزوں سے کون مراد ہیں؟
یہاں سے ثابت کہ ہمارے تمام ائمہ کا اس کے عدم جواز پر اجماع ہے، حضرت امام ابو یوسف بھی مکروہ رکھتے ہیں، ممنوع : نا جائز جانتے ہیں کہ مطلق کراہت کراہت تحریم کے لیے ہے خصوصا نقل اجماع کہ یہاں ہمارے سب ائمہ کا مذہب متحد بتا رہی ہے اور شک نہیں کہ مذہب امام اعظم و امام محمد اس حیلہ کا نا جائز ہونا ہے، غمز العیون کے لفظ سن چکے کہ صاف عدم جواز کی تصریح ہے۔
اقول ( میں کہتا ہوں) اگر بتظافر نقول خلاف (اقوال جب مختلف ہوں تو ) بغرض توفیق ( آپس میں تطبیق دیتے ہوئے اس روایت اجتماع میں کراہت کو معنی اعم پر حمل کریں، تو حاصل یہ ہوگا کہ اس حیلہ کے مکروہ و نا پسند ہونے پر ہمارے ائمہ کا
اجماع ہے، خلاف اس میں ہے کہ امام ابو یوسف مکروہ تنزیہی فرماتے ہیں اور امام اعظم و امام محمد مکروہ تحریمی۔
اور فقیر نے بچشم خود امام ابی یوسف رضی اللہ عنہ کی متواتر کتاب مستطاب الخراج میں یہ عبارت شریفہ مطالعہ کی “
قال ابو يوسف رحمه الله لا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر منع الصدقة و لا اخراجها من ملكه الى ملك جماعة غيره ليفرقها بذلك فتبطل الصدقة عنها بان يصير لكل واحد منهم من الابل والبقر والغنم مالا يجب فيه الصدقة ولا يحتال في ابطال الصدقة بوجه ولا سبب بلغنا عن ابن مسعود رضی الله تعالى عنه انه قال عنا ما مانع الزكوة بمسلم ومن لم يودها فلا صلوة له “
ترجمہ: امام کو یوسف فرماتے ہیں کسی شخص کو جس اللہ و قیامت پر ایمان رکھتا ہ یہ حلال نہیں کہ زکوۃ نہ دے یااپنی ملک سے دوسروں کی ملک میں دے دے جس سے ملک متفرق ہو جائے اور زکوۃ لازم نہ آئے کہ اب ہر ایک کے پاس نصاب سے کم ہے اور کسی طرح کسی صورت ابطال زکوۃ کا حیلہ نہ کرے، ہم کو ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایازکوۃ نہ دینے والا مسلمان نہیں رہتا، اور جوز کوۃ نہ دے اس کی نماز مردود ہے۔
(کتاب الخراج ص 88 مطلعه بولاق مصر )

فتادی کبرای و خزانهہ المفتین کی نقل اجماع عبارت اطلاق کی تائید کر رہی ہے اور اس کا اطلاق اس اجتماع کی۔
امام ابو یوسف نے یہ کتاب مستطاب خلیفہ ہارون کے لیے تصنیف فرمائی ہے جبکہ امام خلافت ہارونی میں قاضی القضاة وقاضي الشرق والغرب تھے اُس میں کمال اعلان حق کے ساتھ خلیفہ کو وہ ہدایات فرمائی ہیں جو ایک اعلیٰ درجے کے امام ربانی کے شایان شان تھیں کہ اللہ کے معاملے میں سلطان وظیفہ کسی کا خوف ولحاظ نہ کرے اور خلیفہ رحمہ اللہ تعالینے ان ہدایات کو اسی طرح سنا ہے جو ایک خدا پرست سلطان وامیر المومنین کے لائق ہے کہ نصائح ائمہ و علماء اگر چہ بظاہر تلخ ہوں گوش قبول سے سنے اور اُن کے حضور فروتنی (عاجزی ) کرے، یہ زمانہ امام کا آخر زمانہ تھا، حاضرین مجلس مبارک سید نا امام اعظم یا اس کے بعد کا قریب زمانہ جس میں خلافات ائمہ مادہ منقول ہوئی ہیں، اس سے متقدم تھا۔
تو اس تقدیر پر نقل اجماع کو ظاہر سے پھیرنے کی حاجت نہیں تطبیق یوں ہوگی کہ امام ابی یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس قول سے رجوع فرمایا اور ان کا آخر قول یہی ٹھہرا جو ان کے استاذ اعظم امام الائمہ اور شاگرد اکبر امام محمد کا ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، اور ایک امام دین جب ایک قول سے رجوع فرمائے تو اب وہ اس کا قول نہ رہا، نہ اس پر طعن روا، نہ سید نا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر طعن کیا کہ وہ ابتداء میں جواز متعہ مدتوں قائل رہے ہیں یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے اپنے زمانہ خلافت میں اُن سے فرمایا کہ اپنے ہی او پر آزماد یکھئے ، اگر متعہ کرو تو میں سنگسار کروں ، آخر زمانہ میں اس سے رجوع کیا اور فرمایا: الله عز وجل نے زوجہ و کنیز شرعی بس ان دو کو حلال فرمایا ہے
فکل فرج سواهما حرام
ان دو کے سوا جو فرج ہے حرام ہے
(جامع الترندی ، ج 1 ، ص 134 ، امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ، دہلی )
نہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کیا جائے کہ وہ پہلے سود کی بعض صورتیں حلال بتاتے ہیں یہاں تک ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ زید کو خبر دے دو کہ اگر وہ اس قول سے باز نہ آئے تو انہوں نے جو حج و جہاد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب کیا اللہ تعالیٰ اسے باطل فرمادے گا۔
(سنن الدار قطنی ، ج 3 ص 52 نشر السنتہ ، ملتان )
مزید پڑھیں:دوکان میں جو سامان موجود ہے اس پر زکوۃ کا حکم؟
رابعاً
یہ حکایت کسی سند مستند سے ثابت نہیں ، اور بے سند مذکور ہونا طعن کے لیے کیا نفع دے سکتا ہے، وہ بھی ایسی کتاب میں خصوصاً جس میں تو وہ حدیثیں خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف ایسی منسوب ہیں جن کی نسبت ائمہ حدیث
نے جزم کیا کہ باطل و موضوع و مکذوب ہیں۔
مجتہد کے اجتہاد میں کس فعل کا جواز آنا اور بات اور خود اس کا مرتکب ہونا اور بات، یہ اساطین دین الہی بار با عوام کے لیے
رخصت بتاتے اور خود عزیمت پر عمل کرتے۔ سیدنا امام اعظم امام الائمہ سراج الامہ کاشف الغمہ مالک الاز مہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
لا احرماالنبیز الشدید دہانہ ولا اشربة مروءة
” ترجمہ: میں نبیذ کو دیا نت حرام نہیں کہتا لیکن مروتا تا اسے پیتا نہیں ہوں۔
اُن کے شاگرد کے شاگر د محمد بن مقاتل رازی کہتے ہیں
لو اعطيت الدنيا افيرها ماشربت المسكر يعني نبيذ التمر و الزبيب ولو اعطيت الدنيا بحذافيرها ما افتيت بانه حرام
” ترجمہ: اگر تمام دنیا مجھے دے دی جائے تو میں نشہ آور چیز یعنی تمر اور زبیب کا نبیذ نہ پیوں گا، اور اگر مجھے تمام دنیا عطا کر دی جائے تو میں اس کے حرام ہونے کا فتوی نہیں دے سکتا۔
خامساً
يد فعل امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے حکایت کیا جاتا ہے آیا خطاء اجتہادی ہے یا اس کی قابلیت نہیں رکھتا بلکہ معاذ اللہ عمد افریضہ اللہ سے معاندت ( مخالفت) ہے، ہر تقدیر اول اس سے طعن کے کیا معنی مجتہد اپنی خطا پر ثواب پاتا ہے اگر چہ صواب ( درستگی ) کا ثواب دونا ہے ۔
اور اگر عیاذ باللہ شق ثانی فرض کی جائے فرض خود سے معاذت قطعاً کبیرہ ہے خصوصاً وہ بھی برسبیل عادت جو ( کر دیا کرتے تھے) کا مفاد ہے خصوصاً اس زعم کے ساتھ کہ آخرت میں اس کا ضرر ہو گناہ سے زائد ہے تو معاذ اللہ اکبر الکبائر ہوا پھر کیونکر حلال ہو گیا کہ ایسے سخت کبیرہ شدید نه کبیره بلکہ اکبر الکبائر کو ایک مسلمان نہ صرف مسلمان بلکہ امام السلمین کی طرف بلا تو اتر نہ فقط نے تو اتر بلکہ محض بلا سند صرف حکی کی بنا پر نسبت کر دیا جائے۔
مزید پڑھیں:کاشتکاری کی زمین پر زکوۃ ہوگی یا عشر؟
سادساً
مجرد (صرف) استقباح (براسمجھنا ) واستبعاد بعید سمجھنا) بے دلیل شرعی مسموع نہیں، نہ احکام زہدا احکام شرع پر حاکم نماز میں قلت خشوع کو اہلِ سلوک کیا کیا سخت و شنیع ندمتیں نہیں کرتے ، ایسی نماز کو باطل و مہمل و فاسد و محل سمجھتے ہیں اور
فقہاء کا اجماع ہے کہ خشوع نہ رکن نماز ہے نہ فرض نہ شرط ۔
ما نحن فيه ( جس مسئلہ میں ہم بات کر رہے ہیں ) کا محل اجتہاد نہ ہونا مخالف نے نہ بتایا، نہ قیامت تک بتا سکتا ہے، پھر اجتہاد مجتہد پر طعن کیا معنی رہا۔
فعل اگر بفرض غلط ایک آدھ بار وقوع بسند معتمد ثابت بھی ہو جائے تو کرنے اور کیا کرنے میں زمین آسمان کابل (فرق) ہے، نہ کان یفعل “ تکرار میں نص۔
واقعہ حال محتمل صد احتمال ہوتا ہے ( واقعہ میں سینکڑوں احتمالات ہو سکتے ہیں ) عروض ضرورت (ضرورت کا پیش آنا ) یا امر اہم یا کچھ نہ ہی تو بیان جواز ہی کہ فعلاً ( کرنا ) قولا ( کہنے ) سے اکمل واتم ( ہوتا ہے )۔
اور ( یہ ان کی فقہ سے ہے ) تصویب نہیں ، اس کے معنی اس قدر کہ یہ انکا اجتہاد ہے جس کا حاصل صرف منع طعن ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد پر سلام نہیں، جس طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عکرمہ کو جب اُنھوں نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی کہ وتر کی ایک رکعت پڑھی جواب دیا ( ( دعہ فانہ فقیہ ) انھیں کچھ نہ کہہ کہ وہ مجتہد ہیں۔
ہاں درباره تصویب و تصدیق یہ حکایت کتب میں منقول ہے کہ امام زین الملۃ والدین ابو بکر خواب میں زیارت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مشرف ہوئے کسی شافعی المذہب نے امام ابو یوسف کا یہ قول حضور کے سامنے عرض کیاحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو یوسف کی تجویز حق ہے، یا فرمایا درست ہے۔
سابعاً
بعد وجوب منع کا حیلہ بالا جماع حرام قطعی ہے، یہاں کلام منع وجوب میں ہے یعنی وہ تدبیر کرنی کہ ابتداء زکوۃ واجب ہی نہ ہو۔ امام ابو یوسف فرماتے ہیں اس میں کون سے حکم کی نافرمانی ہوئی ، اللہ عز وجل نے سال تمام ہونے پر زکوۃ فرض کی جو بعد وجوب ادانہ کرے بالا جماع عاصی ہے، یہ کہاں فرض کیا ہے کہ اپنے زاد (راستہ کا خرچہ ) و راحلہ (سواری) و استطاعت کے قابل مال جمع بھی کر۔
یونہی ہرگز واجب گیا مستحب بھی نہیں کہ قدر نصاب مال جوڑ کر سال بھر رکھ چھوڑ و تا کہ زکوۃ واجب ہو، ائمہ دین کو تعلیم غل کی طرف منسوب کرنا بد گمانی ہے جو عوام مسلمین پر بھی جائز نہیں ، اور حق یہ ہے کہ امام محمدوح کا یہ قول بھی اس لیے نہیں کہ لوگ اسے دستاویز بنا کر زکوہ سے بچیں بلکہ وہ وقت ضرورت و حاجت پر محمول ہے، مثلاً کسی پر حج فرض ہو گیا تھا، مال چوری ہو گیا، مصارف حج ونفقہ عیالی کے لیے ہزار درم کی ضرورت ہے اس سے کم میں نہ ہو گا محنت و کوشش سے جمع کئے ، آج قافلہ جائے کو ہے کل سال زکوۃ تمام ہوگا ، اگر پچیس در ہم نکل جائیں گے مصارف میں کمی پڑے گی
یہ ایسا حیلہ کرے کہ حج فرض سے محروم نہ رہے، یا کوئی شخص اپنے حال کو جانتا ہے کہ زکوۃ اُس سے ہرگز ہرگز قطعا نہ دی جائے گی ، اُس کا نفس ایسا غالب ہے کہ کسی طرح اس فرض کی ادا پر اصلا قدرت نہ دے گا یہ اس خیال سے ایسا کرے کہ بعد فرضیت ترک اداوار تکاب گناہ سے بچوں تو از قبیل من ابتلی ببلتیین اختار اهو نهما ( جو شخص دو مشکلات میں گھر جائے ان میں سے آسان کو اختیار کرے ) ہوگا۔
حیل شرعیہ کا جواز خود قرآن و احادیث سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ایوب علیہ الصلوۃ والسلام نے قسم کھائی تھی کہ اپنی زوجہ مقلد سہ کو سو۰۰ اکوڑے ماریں گے ، رب العزت عز جلالہ نے فرمایا وخذ بیدک ضغشاً فاضرب به ولا تحنث یعنی سوقمیچیوں کی ایک جھاڑو بنا کر اُس سے ایک دفعہ مالو اور تم جھوٹی نہ کرو۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک کمزور شخص پر حد لگانے میں اس حیلہ جمیلہ پر عمل فرمایا ارشاد ہوا
( خذوالہ عثكالا فيه مائة شمراخ ثم اضربوه به ضربة واحدة)
ترجمہ: شاخہائے خرما کا ایک کچھا لے کر جس میں سو شاخیں ہوں اُس سے ایک بار مار دو۔
(مسند امام احمدحنبل ، ج 5، ص 222، دار الفکر، بیروت)
مزید پڑھیں:زکوۃ کس مہینہ میں دینا اولی ہے؟
خود صحیح بخاری شریف بلکہ صحیحین میں حضرت ابوسعید و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک صاحب کو غیر پر حال بنا کر بھیجا ، وعدہ خرمے کجھوریں) وہاں سے لائے فرمایا: کیا خبر کے سب
خرمے ایسے ہی ہیں؟ نہیں یا رسول اللہ واللہ کہ ہم چھ سیر کرموں کے بدلے یہ خرمے تین سیر، اور نو سیر دے کر اس کے چھ سیر خریدتے ہیں۔ فرمایا
( لا تفعل بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جينباً)
) ترجمہ: ایسا نہ کرو بلکہ ناقص خرمے پہلے روپوں کے عوض بیچو پھر ان روپوں سے یہ عمدہ خر مے خریدو۔
(صحیح البخاری ، ج 1 ، ص 293، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
یہ شرعی حیلے نہیں تو اور کیا ہیں ، باب حیل واسع ہے، اگر کلام کو وسعت دی جائے تطویل لازم آئے ۔ اہل انصاف کو اسی قدر بس ہے، پھر جب اللہ و رسول اجازت دیں تعلیمیں فرما ئیں تو ابو یوسف پر کیا الزام آسکتا ہے۔
ہاں ہمارے امام اعظم و امام محمد رضی اللہ تعالی عنہم نے یہ خیال فرمایا کہ کہیں اس کی تجویز عوام کے لیے مقصد شنیع کا دروازہ کھولے، لہذ ا ممانعت فرمادی، اور ائمہ فتوی نے اسی منع ہی پر فتوی دیا۔
امام بخاری بھی اگر امام محمد کا ساتھ دیں اور یہ قول امام ابی یوسف پسند نہ کریں تو امام ابی یوسف کی شان جلیل کو کیا نقصان ، وہ کون سا مجتہد ہے جس کے بعض اقوال دوسروں کی مرضی ( پسندیدہ) نہ ہوئے، یہ دو قبول تو زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بلانکیر رائج و معمول ہے، نہ بخاری کے اقوال مذکورہ میں کوئی کلمہ سخت نفرت کا ہے، اُن سے صرف اتنا نکلتا ہے کہ یہ قول انھیں مختار نہیں۔
اور ہو بھی تو ان کی نفرت امام مجتہد کو کیا ضرر دے سکتی ہے خصوصاً ائمہ حنفیہ لا سما امام الائمہ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ و منم که امام
بخاری کے امام و متبوع سید نا امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ جن کی نسبت شہادت دیتے ہیں کہ تمام مجتہدین امام ابو حنیفہ کے بال بچے ہیں حفظ حدیث و نقد رجال و وقتی صحت و ضعف روایات میں امام بخاری کا اپنے زمانے میں پایہ رفیع والا ، صاحب رتبہ بالا مقبول معاصرین و مقتدائے متاخرین ہونا مسلم ۔ کتب حدیث میں حدیث میں ان کی کتاب بیشک نہایت چیده و انتخاب جس کے تعالیق و متابعات و شواہد کو چھوڑ کر اصول مسانید پر نظر کیجئے تو ان میں گنجائش کلام تقریباً شاید ایسی ہی ملے جیسے مسائل ثانیہ امام اعظم میں اور یہ بھی بحمداللہ حنفیہ شاگردان ابوحنیفہ و شاگردان شاگرد ابو ظیفه مثل امام عبد الله بن المبارک و امام یحی بن سعید قطان و اما مفضیل بن عیاض و امام مستعمر بن کرام و امام وکیع الجراح و امام لیث بن سعد و امام علی بن منصور از وامام یحی بن معین و غیر ہم ائمہ دین علیم اجمعین کا فیض تھا کہ امام بخاری نے اُن کے شاگردوں سے علم حاصل کیا اور ان کے قدم پر قدم رکھا اور خود امام بخاری کے استاذ اجل امام احمد بن حنبل، امام شافعی کے شاگرد ہیں وہ امام محمد کے وہ امام ابو یوسف کے وہ امام ابوحنیفہ کے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
مگر یہ کارا ہم ایسا نہ تھا کہ امام بخاری اس میں ہمہ تن مستغرق ہو کر دوسرے کا راجل و اعظم مل و اعظم یعنی فقاہت و اجتہاد کی بھی فرصت پاتے ، اللہ عز و جل نے انھیں خدمت الفاظ کریمہ کے لیے بنایا تھا خدمت معانی ائمہ مجتہدین خصوصاً امام الائمہ ابو حنیفہ کا حصہ تھا، محدث و مجتہد کی نسبت عطار ( ڈسپنسر) وطبیب (ڈاکٹر) کی مثل ہے ، عطار دوا شناس ہے اُس کی دُکان عمدہ عمدہ دواؤں سے مالا مال ہے مگر تشخیص مرض و معرفت علاج وطریق استعمال طبیب کا کام ہے۔
اور انصافا یہ تمنا بھی عبث ہے، امام بخاری ایسے ہوتے تو امام بخاری ہی نہ ہوتے، ان ظاہر بیٹوں کے یہاں وہ بھی ائمہ حنفیہ کی طرح معتوب و معیوب قرار پاتے عالی الله المشتکی و علیہ التکان (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہی درخواست ہے اور اس پر بھروسا ہے ) بالجملہ ہم اہل حق کے نزدیک حضرت امام بخاری کو حضور پر لور امام اعظم سے وہی نسبت ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور پر نو رامیر المومنین مولی المسلمین سیدان مولنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الاسنی سے کہ فرق مراتب بے شمار اور حق بدست حیدر کرار، مگر معاویہ بھی ہمارے سردار طعن اُن پر بھی کار تجار، جو معاویہ کی حمایت میں عیاذ باللہ اسد اللہ و اولیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی، اور جو علی کی محبت میں معاویہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بُھلا دے وہ شیعی زیدی، یہی روش آداب محمد اللہ تعالیٰ ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے یہی نسبت ہمارے نزدیک امام ابن الجوزی کو حضور سید ناغوث اعظم اور مولانا علی قاری کو حضرت خاتم ولایت محمد یہ شیخ اکبر سے ہے، نہ ہم بخاری و ابن جوزی و علی قاری کے اعتراضوں سے شان رفیع امام اعظم و غوث اعظم شیخ اکبر رضی اللہ تعلٰی عنہم پر کچھ اثر سمجھیں نہ ان حضرات سے کہ امام و بوجہ خطافی الفہم معترض ہوئے الجھیں ، ہم جانتے ہیں کہ ان کا منشاء اعتراض بھی نفسانیت نہ تھا بلکہ ان اکا بر محبوبان خدا کے مدارک عالیہ تک درس اور اک نہ پہنچنالا جرم اعتراض باطل اور معترض معذور، اور معترض علیہم کی شان ارفع واقدس

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 187 تا 201

READ MORE  سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟
مزید پڑھیں:ساری زندگی صدقہ کیا، مسجد بنوائی زکوۃ نہ دی، اسکا کیا حکم؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top