:سوال
شبینہ پڑھنا یعنی ایک شب میں قرآن مجید ختم کرنا تراویح یا تہجد یا نفل میں جائز ہے یا نہیں اور جو شخص قواعد ساتھ صاف صاف پڑھتا ہے اس کی اقتداء میں اگر کچھ لوگ ذوق و شوق اور خلوص و ہمت سے داخل ہو کر شرکت کریں تو ان مقتدیوں اور امام کی بابت کیا حکم ہے ، زید کہتا ہے کہ شبینہ مطلقاً نا جائز ہے اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ حرام ہے صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے زمانہ میں کبھی نہیں ہوا، اور یہ جو بعض بزرگوں کی نسبت مشہور ہے کہ فلاں بزرگ نے ایک رات میں اتنے اتنے ختم کئے بالخصوص حضرت سید امام اعظم رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی نسبت وہ محض خصوصیات ہیں ان کا یہ فعل ہمارے لئے حجت نہیں ہے، اور شبینہ کرانے پر زید ( جو کہ امام مسجد ہے ) نے بالا اعلان ہم سب مسلمانوں کو اسی جامع مسجد میں بعد نماز مغرب مصلے پر کھڑے ہو کر ماں بہن کی گالیاں دیں اور کہا شبینہ سننا اور وہاں جانا سب گناہ ہے، اس بارے میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔
:جواب
شبینہ فی نفسہ قطعاً جائز و روا ہے اکا بر ائمہ دین کا معمول رہا ہے اسے حرام کہنا شریعت پر افترا ہے، امام الائمہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تیس برس کامل ہر رات ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کیا ہے۔ بلا دلیل شرعی کسی حکم کو بعض عباد ( بندوں ) سے خاص مان لینا جزاف ( بے تکی بات ) ہے اور یہ کہنا کہ ان کا یہ فعل ہمارے لئے حجت نہیں ادب کے خلاف محض لاف ہے، ان کا فعل حجت نہ ہوگا تو کیا زید و عمر و کا ہوگا! علمائے کرام نے فرمایا ہے سلف صالحین میں بعض اکابر دن رات میں ، دو ختم فرماتے بعض چار بخش آٹھ ، میزان الشریعہ امام عبد الوہاب شعرانی میں ہے کہ سیدی علی مروصفی قدس سرہ نے ایک رات دن میں تین لا کھ ساٹھ ہزار ختم فرمائے۔
آثار میں ہے امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہ الکریم بایاں پاؤں رکاب میں رکھ کر قرآن مجید شروع فرماتے اور دہنا پاؤں رکاب تک نہ پہنچتا کہ کلام شریف ختم ہو جاتا ۔ بلکہ خودحدیث میں ارشاد ہے کہ داؤد علیہ السلام اپنے گھوڑے زین کرنے کو فرماتے اور اتنی دیر سے کم میں زبور یا تو راۃ مقدس ختم فرما لیتے ۔ تو رات شریف قرآن مجید سے حجم میں کئی حصے زائد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ و سلم نے فرمایا ”خفف علمی داؤد القرآن فكان يأمر بدوابه فتسرج فيقرأ القرآن من قبل أن تسر ج دوابه ”حضرت داود علیہ سلام پر اللہ تعاں نے تلا وت آسان فرمادی تھی آپ سواری پر زین رکھنے کا حکم دیتے اور زمین رکھی جاتی تو آپ زین رکھنے سے پہلے زبور تلاوت کر لیتے۔
(صحیح البخاری ،ج1،ص485،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
مزید پڑھیں:نماز تراویح کے دوران فرضوں کی جماعت قائم کرنا کیسا؟
ان افعال کریمہ کو حجت نہ ماننا کیسی گستاخی ہے، جاہل وہ کہ اسوت اور حجت میں فرق نہ جانے ، ہم ان میں اقتدار پر قادر نہیں مگر وہ حجت شرعیہ ضرور ہیں کہ فی نفسہ یہ فعل حسن ہے کراہت یا ممانعت اگر آئے گی تو عوارض سے ، اور وہ یہاں پانچ ہیں
اول عدم تفقہ یعنی جلدی کی وجہ سے معانی قرآن کریم میں تفکر و تدبر نہ ہو سکے گا ، اصل وجہ منصوص فی الحدیث ہی ہے ترندی میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے ”لم یفقه من فرائض القرآن في اقل من ثلاث ”جس نے تین رات سے کم میں قرآن مجید ختم کیا اس نے سمجھ کر نہ پڑھا۔
(جامع التر مذی،ج2،ص119،امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ ،دہلی)
یہ وجہ صرف نفی افضلیت کرتی ہے جس سے کراہت بھی ثابت نہیں ہوتی ۔ والہذا عالمگیری میں بہت شبینہ کے قول کو بصیغہ ضعف و مرجوحیت نقل کیا۔
مزید پڑھیں:تنہا فرض پڑھنے والے کے لیے وتروں کا حکم
اقول ( میں کہتا ہوں ) پھر یہ بھی ان کے لئے ہے جو تفکر معانی کریں یہاں کے عام لوگ کہ کتنا ہی دیر میں پڑھئے تفکر سے محروم ہیں اُن کے لئے دیر بے سود ہے اور وہ مقصود لذاتہ نہیں بلکہ اسی لئے مقصود ہے اُن کے لئے معتدل جلدی ہی کا افضل ہونا چاہئے کہ جس قدر جلد پڑھیں گے قرآت زائد ہوگی اور قرآن کریم کے ہر حرف پر دس نیکیاں میں سو کی جگہ پانسو حرف پڑھے تو ہزار کی جگہ پانچ ہزار نیکیاں ملیں، نبی ﷺفرماتے ہیں ” من قرأ حرفا من كتاب الله فله حسنة و الحسنة بعشرا مثالها لا اقول الله حرف ولكن الف حرف ولام حرف وميم حرف” جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی دس نیکیاں، میں نہیں فرماتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
(جامع الترمذی،ج2،ص115،ا مین کمپنی کتب خانہ رشید یہ، دہلی )
اور ہر ثواب فہم پر موقوف نہیں، امام احمد رضی اللہ عنہ نے رب عز و جل کو خواب میں دیکھا عرض کی: اے میرے رب !کیا چیز تیرے بندوں کو تیرے عذاب سے نجات دینے والی ہے۔ فرمایا: میری کتاب ۔ عرض كى يارب بفهم او بعير فهم اے میرے رب ! سمجھ کریا بے سمجھ بھی۔ فرمایا بفهم و بغیر فهم سمجھ کر اور بے سمجھے۔
دوم کسل (سستی ) ، نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”ان الله لا يسام حتى تسأموا” بیشک اللہ تعالی ثواب دینے میں کمی نہیں فرماتا جب تک نہ اکتاؤ۔
(ا مستند احمد بن قبل ان 5 میں 247، دار الفکر، بیردسته)
مزید پڑھیں:بھول کر تین رکعت تراویح پڑھنے کا حکم
اقول یہ وجہ عام عوام کو عام ہے اور احکام فقہیہ میں غالب ہی کا اعتبار ہوتا ہے۔ مگر اس وجہ کا مفاد صرف کراہت تنزیہی ہے، عماء نے تصریح فرمائی کہ کسل قوم کے سبب تراویح میں قرآن نہ چھوڑ یں۔ اگر کراہت تحریم ہوتی اس سے اختر از احتر از سنت پر مقدم رہتا اور مکروہ تنزیہی جواز وا با حت رکھتا ہے نہ کہ گناہ وحرمت
سوم بعض لوگ ایسا جلد پڑھتے ہیں علیم یا حکیم، یعقلون ، تعلمون غرض لفظ ختم آیت کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا نفس سنت کا فانی اور بدعت شنیعہ اور اساءت ہے۔
چهارم ترک واجبات قرآة مثل مد متصل، یہ صورت گناہ ومکر وہ تحریمی ہے۔
پنجم امتیاز حروف متشابہ مثل ت س ص ، ت ط،ز ذظ و غیر ہا نہ رہنا، یہ خود حرام ومفسد نماز ہے مگر ہندوستان کی جہالتوں کا کیا علاج، حفاظ وعلما ء کو دیکھا ہے کہ تراویح در کنار فرائض میں بھی اس کی رعایت نہیں کرتے ،نماز یں مفت بر باد جاتی ہیں۔ شبینہ مذکورہ سوال کہ ان عوارض سے خالی تھا اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ جماعت نقل میں تداعی نہ ہوئی ہو کہ مکروہ (تنزیہی ) ہے۔ مسلمانوں کوفحش گالیاں دینا خصوصاً ماں بہن کی خصوصاً مسجد میں سخت فسق ہے رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذى “مسلمان نہیں ہوتا ہے بہت طعنہ کرنے والا بہت لعنت ، کرنے والا نہ بے حیا بخش گو۔
خصوصاً جو اس کا عادی ہے اس کے سخت فاسق معلن ہونے میں کلام نہیں اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ، اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 476 تا 480