:سوال
اس کے کچھ دلائل ارشاد فرمادیجئے ۔
:جواب
دلیل نمبر (1)
وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوال نکیرین ہوتا ہے شیطان رجیم وہاں بھی خلل انداز ہوتا ہے اور جواب میں بہکاتا ہے۔ امام ترمذی محمد بن علی نوادر الاصول میں روایت کرتے ہیں اذا سئل الميت من ربك تراأى له الشيطان في صورت فيشير الى نفسه اى انا بك فلهذا ورد سوال التثبيت له حين يسئل “ترجمہ جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے ؟ شیطان اس پر ظاہر ہوتا اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہوں ، اس لئے حکم آیا کہ میت کے لئے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔
اور صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اذان شیطان کو دفع کرتی ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم و غیر ہما میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حضور اقدس سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں اذا اذن المؤذن أدبر الشيطان وله حصاص ترجمہ جب مؤذن اذان کہتا ہے شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھگتا ہے ۔صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے واضح کہ چھتیس میل تک بھاگ جاتا ہے۔
اور خود حدیث میں حکم آیا جب شیطان کا کھٹکا ہو فورا اذان کہو کہ وہ دفع ہو جائے گا۔ جب ثابت ہو لیا کہ وہ وقت عیاذا باللہ مد اخلت شیطان لعین کا ہے اور ارشاد ہوا کہ شیطان اذان سے بھاگتا ہے اور اس میں حکم آیا کہ اس کے دفع کو اذان کہو تو یہ اذان خاص حدیثوں سے مستنبط بلکہ عین ارشاد شارع کے مطابق اور مسلمان بھائی کی عمدہ امداد دو اعانت ہوئی جس کی خوبیوں سے قران و حدیث مالا مال۔
مزید پڑھیں:کیا اعمال و وظائف کے لیے سند ہونا ضروری ہے؟
(2)دلیل نمبر
امام احمد و طبرانی وہ بے بیہقی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی قال لما دفن سعد بن معا ذ (زادفی روایۃ)وسوى عليه سبح النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وسبح الناس معه طويلا ثم كبر وكبر الناس ثم قالوا يا رسول الله لم سبحت( زاد فى رواية) ثم كبرت : قال لقد تضايق على هذا الرجل الصالح قبره حتى فرج الله تعالى عنه
ترجمہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ دفن ہو چکے اور قبر درست کر دی گئی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دیر تک سبحان اللہ فرماتے رہے اور صحابہ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے پھر حضور اللہ اکبر اللہ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے پھر صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! حضور اول تسبیح پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے ؟ارشاد فرمایا اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے وہ تکلیف اس سے دور کی اور قبر کشیدہ فرما دی۔
علامہ طیبی شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں ای مازلت اکبر و تکبرون واسبح و تسبحون حتی فرجہ اللہ ترجمہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر میں اور تم اللہ اکبر اللہ اکبر سبحان اللہ کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔
:اقوال
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے میت پر آسانی کے لیے بعد دفن کے قبر پر اللہ اکبر اللہ اکبر بار بار فرمایا ہے اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنت ہوا غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں۔سو ان کی زیارت نہ معاذ اللہ کچھ مضر( نقصان دہ) نہ اس عمر مسنون کے منافی بلکہ زائد مفید وموید مقصود ہے کہ رحمت الہی اتارنے کے لیے ذکر خدا کرنا تھا۔
دیکھو یہ بعینہ مسلک نفیس ہے جو دربار تلبیہ اجلہ صحابہ عظام مثل حضرت امیر المومنین عمر و حضرت عبداللہ بن عمر و حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت امام حسن محتبی وغیر ہم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا۔ ہدایہ میں ہے لا ینبغی ان یخل بشیءمن ھذہ الکلمات لا نہ ھو المنقول فلا ینقص عنہ ،ولوزاد فیھا جازلان المقصود الثناء واظهار العبودية فلا يمنع من الزیادۃ علیہ یعنی ان کلمات میں کمی نہ چاہئے کہ یہی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منقول ہیں تو اُن سے گھٹائے نہیں اور اگر بڑھائے تو جائز ہے کہ مقصود اللہ تعالی کی تعریف اور اپنی بندگی کا ظاہر کرتا ہے تو اور کلمے زیادہ کرنے سے ممانعت نہیں ۔
مزید پڑھیں:مشاجرات صحابہ میں تواریخ و سیر کی موحش حکایتیں مردود
دلیل نمبر (3)
بالا تفاق سنت اور حدیثوں سے ثابت اور فقہ میں مثبت کہ میت کے پاس حالت نزع میں کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کہتے رہیں کہ اسے سن کر یاد ہو حدیث متواتر میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں لقنوا موتاكم الاله الالله( اپنےمردوں کو لا الہ الا اللہ سکھاؤ)۔ اب جو نزع میں ہے وہ مجاز ا مردہ ہے اور اسے کلمہ اسلام سکھانے کی حاجت کہ بحول اللہ تعالی خاتمہ اس پاک کلے پر ہو اور شیطان لعین کے بھلانے میں نہ آئے اور جو دفن ہو چکا حقیقتہ مردہ ہے اور اُسے بھی کلمہ پاک سکھانے کی حاجت کہ بعون اللہ تعالی جواب یاد ہو جائے اور شیطان رجیم کے بہکانے میں نہ آئے اور بیشک اذان میں یہی کلمہ لا الہ الا اللہ تین جگہ موجود۔
بلکہ اُس کے تمام کلمات جواب نکیرین بتاتے ہیں ، ان کے سوال تین ہیں (1) من ربك تیرا رب کون ہے؟ (۲) ما دينك تیرا دین کیا ہے ؟ (۳) ما كنت تقول في هذا الرجل تو اس مرد یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟
اب اذان کی ابتدا میں اللہ اکبر الله اكبر الله اكبر الله اكبر اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان لا اله الا الله اور آخر میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا اله الا اللہ سوال من ربک کا جواب سکھائیں گے ان کے ملنے سے یاد آئیگا کہ میرا رب اللہ ہے۔ اور اشهد ان محمدا رسول الله اشهد ان محمدا رسول الله سوال ماكنت تقول في هذا الرجل كا جواب تعلیم کریں گے کہ میں انہیں اللہ کا رسول جانتا تھا ۔ اور حى على الصلاة حي على الفلاح جواب مادینک کی طرف اشارہ کریں گے کہ میرا دین وہ تھا جس میں نماز رکن وستون ہے کہ الصلاة عماد الدین ۔ تو بعد دفن اذان دینا عین ارشاد کی تعمیل ہے جو نبی صلی الله تعالی علیہ و سلم نے حدیث صحیح متواتر مذکور میں فرمایا۔
اب یہ کلام سماع موتی و تلقین اموات کی طرف مخبر ہوگا فقیر غفراللہ تعالی خاص اس مسئلہ میں کتاب مبسوط مسمی بہ حیاۃ الموات في بيان سماع الاموات تحریر کر چکا جس میں پچھتر حدیثوں اور پونے چار سوا قوال ائمہ دین و علمائے کاملین و خود بزرگان منکرین سے ثابت کیا کہ مردوں کا سننادیکھنا سمجھنا قطعا حق ہے اور اس پر اہل سنت و جماعت کا اجماع قائم اور اس کا انکار نہ کرے گا مگر غبی جاہل یا معاند مبطل اور اسی کی چند فصول میں بحث تلقین بھی صاف کر دی یہاں اُس کے اعادہ کی حاجت نہیں۔
مزید پڑھیں:مطلق مجہول راوی بولا جائے تو کون سا مراد ہوتا ہے؟
دلیل نمبر (4)
حضور اقدس صلی اللہ علی علیہ و سلم فرماتے ہیں الطفوا الحريق بالتكبير ” (آگ کو تکبیر سے بجھاؤ)۔حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں اذا رأيتم الحريق فكبروا فانه يطفي النار ” جب آگ دیکھو اللہ اکبراللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو کہ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے۔ علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں فكبروا اي قولو الله اكبر، الله اكبر وكر روه كثيرا” فکبروا” سے مراد یہ ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر کثرت کے ساتھ بار بار کہو۔
مولانا علی قاری علیه الرحمة الباري أس حدیث کی شرح میں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قبر کے پاس دیر تک اللہ اکبرفرماتے رہے، لکھتے ہیں التكبير على هذا لاطفاء الغضب الالهى ولهذا أورد استحباب التكبير عند رؤية الحريق اب یا اللہ اکبراللہ اکبر کہنا غضب الہی کے بجھانے کو ہے والہذا آگ لگی د یکھ کر دیر تک تکبیر مستحب ٹھہری۔
وسیلۃ النجاۃ میں حیرة الفقہ سے منقول اہل قبرستان پر تکبیر کہنے میں حکمت یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ”اذارایتم الحريق فكبروا ”يعنی جب تم کسی جگہ آگ بھڑکتی ہوئی دیکھو اور تم اسے بجھانے کی طاقت نہ رکھتے ہو تو تکبیر کہو کہ اس تکبیر کی برکت سے وہ آگ ٹھنڈی پڑ جائیگی چونکہ عذاب قبر بھی آگ کے ساتھ ہوتا ہے
اور اسے تم اپنے ہاتھ سے بجھانے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا اللہ کا نام لو (تکبیر کہو ) تا کہ فوت ہونے والے لوگ دوزخ کی آگ سے خلاصی پائیں۔ یہاں سے بھی ثابت کہ قبر مسلم پر تکبیر کہنا فرد سنت ہے تو یہ اذ ان بھی قطعا سنت پر مشتمل اور زیادات مفیدہ کا مانع سنیت نہ ہونا تقریر دلیل دوم سے ظاہر ۔
دلیل نمبر (5)
ابن ماجه وبیہقی سعید بن مسیب سے راوی ” قال حضرت ابن عمر في جنازة فلما وضعها في اللحد قال بسم الله وفي سبيل الله فلما اخذ في تسوية اللحد قال اللهم أجرها من الشيطن ومن عذاب القبر ثم قال سمعته من رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم “ یعنی میں حضرت عبداللہ بن عم رضی اللہ تعالی عنہما کیساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اُسے لحد میں رکھا کہا بسم الله وفی سبیل اللہ جب لحد برابرکرنے لگے کہا الہی! اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے، پھر فرمایا میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا۔
امام ترمزی حکیم قدس سر ہ الکریم بسند جید عمرو بن مرہ تابعی سے روایت کرتے ہیں ” كانوا يستحبون اذا وضع الميت في اللحد ان يقولوا اللهم اعذه من الشيطان الرجيم ” یعنی صحابہ کرام یا تابعین عظام مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملت پر الہی! اسے عذاب قبر وعذاب دوزخ اور شیطان ملعون کے شر سے پناہ بخش۔
ابن ابی شیبہ استاذ امام بخاری و مسلم اپنے مصنف میں خثیمہ سے راوی ” کا نوا يستحبون اذاوضعوا الميت ان يقولوا بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله اللهم اجره من عذاب القبر وعذاب النار ومن شر الشيطان الرجيم” مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملت پر الہی اسے عذاب قبر و عذاب دوزخ اور شیطان ملعون کے شر سے پناہ بخش۔
ان حدیثوں سے جس طرح یہ ثابت ہوا کہ اس وقت عیاذا باللہ شیطان رجیم کا دخل ہوتا ہے یونہی یہ بھی واضح ہوا کہ اس کے دفع کی تقدیر سنت ہے کہ دعا نہیں مگر ایک تدبیر اور احادیث سابقہ دلیل اوّل سے واضح کہ اذان رفع شیطان کی ایک عمدہ تدبیر ہے تو یہ بھی مقصود شارع کے مطابق اور اپنی نظیر شرعی سے موافق ہوئی ۔
مزید پڑھیں:کیا حدیث ضعیف سے سنت ثابت ہو سکتی ہے؟
دلیل نمبر (6)
ابوداودو حاکم وبیہقی امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ” كان النبی صلى الله تعالى عليه وسلم أذاافرغ من دفن الميت وقف عليه قال استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبت فانه الان يسأل “ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب دفن میت سے فارغ ہوتے قبر پر وقوف فرماتے اور ارشاد کرتے اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے جواب نکیرین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہوگا۔
سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ” قال كان رسول اللہ صلى الله تعالى علیہ وسلم يقف على القبر بعد ماسوى عليه فيقول اللهم نزل بك صاحبنا وخلف الدنيا خلف ظهره اللهم ثبت عند المسألة منطقة ولا تبتله في قبره بما لا طاقة له به “ یعنی جب مردہ دفن ہو کر قبر درست ہو جاتی حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قبر پر کھڑے ہوکر دعا کرتے الہی ہمارا ساتھی تیرا مہمان ہوا اور دنیا اپنے پس پشت چھوڑ آیا ، الہی !سوال کے وقت اس کی زبان درست رکھ اور قبر میں اس پر وہ بلا نہ ڈال جس کی اسے طاقت نہ ہو۔
ان حدیثوں اور احادیث دلیل پنجم وغیرہ سے ثابت کہ دفن کے بعد دعا سنت ہے۔ امام محمد بن علی حکیم ترمذی قدس سرہ الشریف دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستانہ شاہی پر میت کی شفاعت و عذر خواہی کیلئے حاضر ہوا اور اب قبر پر کھڑے ہو کر دعا یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی مشغول کا ہے کہ اُسے اُس کی جگہ کا ہول اور نکیرین کا سوال پیش آنے والا ہے۔
نقله المولى جلال الملة والدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی فی شرح الصدور ( امام جلال الدین سیوطی نے اسے شرح الصدور میں نقل کیا ہے)۔ اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحباب دعا کا عالم میں کوئی عالم منکر ہو ۔ امام آجری فرماتے ہیں ” يستحب الوقوف بعد الدفن قليلا والدعاء للميت ” مستحب ہے کہ دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے رہیں اور میت کے لئے دعا کریں۔ طرفہ یہ کہ امام ثانی منکرین یعنی مولوی اسحاق صاحب دہلوی نے مائے مسائل میں اس سوال کے جواب میں کہ بعد دفن قبر پر اذان کیسی ہے فتح القدیرو بحر الرائق ونہر الفائق وفتاوی عالمگیریہ سے نقل کیا کہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعاسنت سے ثابت ہے
اور براہ بزرگی اتنانہ جانا کہ اذان خود دعا بلکہ بہترین دعا سے ہے کہ وہ ذکر الہی ہے اور ہر ذکر الہی دعا، تو وہ بھی اسی سنت ثابتہ ایک فرد ہوئی پھر سنیت مطلق سے کراہت فرد پر استدلال عجب تماشا ہے۔ مولا نا علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں کل دعا ذکر و كل ذکر دعا ” (ہر دعا ذکر ہےاور ہر ذکر دعا ہے )۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں افضل الدعاء الحمد الله ” ( سب دعاؤں سے افضل دعا الحمد للہ ہے )۔
صحیحین ( بخاری و مسلم ) میں ہے ایک سفر میں لوگوں نے بآواز بلند اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا شروع کیا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کروانكم لا تدعون اصم ولا غائبا انكم تدعون سميعاً بصيرا ( تم کسی بہرےیا غائب سے دعا نہیں کرتے سمیع بصیر سے دعا کرتے ہو)۔ دیکھو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور خاص کلمہ اللہ اکبر کو دعافرمایا تو اذ ان کے بھی ایک دعا اورفرد مسنون ہونے میں کیا شک رہا۔
مزید پڑھیں:فضائل میں کوئی بے سند حدیث کتب علماء میں ہوتو کیا قبول ہوگی؟
دلیل نمبر (7)
یہ تو واضح ہو لیا کہ بعد دفن میت کے لئے دُعا سنت ہے اور علماء فرماتے ہیں آداب دعا سے ہے کہ اُس سے پہلے کوئی عمل صالح کرے۔ امام شمس الدین محمد بن الجزری کی حصن حصین شریف میں ہے اداب الدعاء منها تقدیم عمل صالح وذكره عند الشدة “م ت د۔ ترجمہ آداب دعا میں سے ہے کہ اس سے پہلے عمل صالح ہو اور ذکر الہی مشکل وقت میں ضرور کرنا چاہئے مسلم تر مذی ، ابود اود،علامہ علی قاری حرزثمین میں فرماتے ہیں ” یہ ادب حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ ابوداؤد وترمزی ،و نسائی و ابن ماجه و ابن حبان نے روایت کی ،ثابت ہے۔
اور شک نہیں کہ اذان بھی عمل صالح ہے تو دعا پر اس کی تقدیم مطابق مقصود و سنت ہوئی ۔
دلیل نمبر (8)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ثنتان لا ترد الدعاء عند النداء و عند البأس ” دودعائیں رد نہیں ہوتیں ایک اذان کے وقت اور ایک جہاد میں جب کفار سے لڑائی شروع ہو۔اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم” اذا نادى المنادي فتحت ابواب السماء واستجيب الدعا ” ” جب اذان دینے والااذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے۔ ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اذان اسباب اجابت دعا اور یہاں دعا شارع جل وعلا کو مقصود تو اس کےاسباب اجابت کی تحصیل قطعا محمود۔
مزید پڑھیں:کتب حدیث کے چار طبقات
دلیل نمبر (۹)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” يغفر الله للمؤذن منتهى اذانه ويستغفر له كل رطب ويابس سمع صوتہ اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے موذن کیلئے اتنی ہی وسیع مغفرت آتی ہے اور جس تر و خشک چیز کواس کی آواز پہنچتی ہے اذان دینے والے کے لئے استغفار کرتی ہے۔
( امام اہل سنت علیہ الرحمہ مذکورہ بالا حدیث پانچ طرق سے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ) یہ پانچ حدیثیں ارشاد فرماتی ہیں کہ اذان باعث مغفرت ہے اور بیشک مغفور کی دعا زیادہ قابل قبول واقرب با جابت ہے اور خود حدیث میں وارد کے مغفوروں سے دُعا منگوانی چاہئے ، امام احمد مسند میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتےہیں اذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه ومره ان يستغفر لك قبل أن يدخل بيته فانه مغفور له ” جب تو حاجی ہے ملے اُسے سلام کر اور مصافحہ کر اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس سے اپنے لئے استغفار کرا کہ وہ مغفور ہے۔
پس اگر اہل اسلام بعد دفن میت اپنے میں کسی بندہ صالح سے اذان کہلوائیں تا کہ بحکم احادیث صحیحہ ان شاء اللہ تعالی اس کے گناہوں کی مغفرت ہو پھر میت کے لئے دعا کرے کہ مغفور کی دعا میں زیادہ رجائے اجابت ہو تو کیا گناہ ہوا بلکہ عین مقاصد شرع سے مطابق ہوا۔
مزید پڑھیں:معانقہ (گلے ملنا) کس کس صورت میں جائز ہے؟
دلیل نمبر (۱۰)
اذان ذکر الہی اور ذکر الہی دافع عذاب ۔ رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ما من شيء انجى من عذاب الله من ذکر اللہ کوئی چیز ذکر خدا سےزیادہ عذاب خدا سے نجات بخشنے والی نہیں ۔ خود اذ ان کی نسبت وارد، جہاں کہی جاتی ہے وہ جگہ اس دن عذاب سے ماموں ہو جاتی ہے، طبرانی معاجیم ثلثہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” اذا اذان في قرية امنها الله من عذابه في ذلك اليوم ” جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہے۔ وشاهده عنده في الكبير من حديث معقل بن يسار رضى الله تعالی عنہ اور اس کی شاہد وہ روایت ہے جو معجم کبیر میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ۔
اور بیشک اپنے بھائی مسلمان کے لئے ایسا عمل کرنا جو عذاب سے منجی ہو شارع جل وعلا کو محبوب و مرغوب ۔ مولنا علی قاری رحمہ الباری شرح عین العلم میں قبر کے پاس قرآن پڑھنے اور تسبیح ودعائے رحمت و مغفرت کرنے کی وصیت فرما کر لکھتے ہیں” فان الاذكار كلها نافعة له في تلك الدار ” ( کہ ذکر جس قدر ہیں سب میت کو قبر میں نفع بخشتے ہیں )۔ یا رب مگر اذان ذکر محبوب نہیں یا مسلمان بھائی کو نفع ملناشر عا مرغوب نہیں ۔
دلیل نمبر (11)
اذان ( میں ) ذکر مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے اور ذکر مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم باعث نزول رحمت۔
اولا حضور کا ذکر عین ذکر خدا ہے امام ابن عطا پھر امام قاضی عیاض و غیر ہما ائمہ کرام تفسیر قولہ تعالی ”ورفعنالک ذکرک” میں فرماتے ہیں ”جعلتك ذكراً من ذكرى فمن ذكرك فقد ذکرنی ” میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یاد کیا جو تمہارا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے اور ذکر الہی بلا شبہ رحمت اتارنے کا باعث سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم صحیح حدیث میں ذکر کرنے والوں کی نسبت فرماتے ہیں حفتهم الملئكة وغشيتهم الرحمة ونزلت عليهم السکينة انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہی ڈانپ دیتی ہے اور ان پر سکینہ اور چین اترتا ہے۔
ثانیا ہر محبوب خدا کا ذکر محل نزول رحمت ہے۔ امام سفین عینیہ رحمت اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں” عند ذکر الصالحین تنزل رحمۃ”( نیکوں کے ذکر کے وقت رحمت الہی اترتی ہے)۔ ابو جعفر بن حمد ان نے ابو عمر و بن نجید سے ایسے بیان کر کے فرمایا ”فرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم راس اور صالحین”( تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تو سب صالحین کے سردار ہیں)۔ بس بلا شبہ جہاں اذان ہو گئی رحمت الہی اترے گی اور بھائی مسلمانوں کے لیے وہ فعل جو باعث نزول رحمت ہو شرع کو پسند ہے کہ نہ ممنوع۔
مزید پڑھیں:فضائل سے مراد اعمال حسنہ ہیں یا صرف ثواب اعمال؟
دلیل نمبر 12
خود ظاہر اور حدیثوں سے بھی ثابت کے مردے کو اس نئے مکان تنگ و تاریخ میں سخت وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے” الا ما رحم ربی ان ربی غفور الرحیم”( مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے یقینا میرا رب بخشش فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے)۔ اور اذان دافع وحشت و باعث اطمینان خاطر ہے کہ وہ ذکر خدا ہے اور اللہ عزوجل فرماتا ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب( سن لو خدا کے ذکر سے چین پاتے ہیں دل)۔ ابو نعیم وابن عسا کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
” نزل ادم بالھند فاستوحش فنزل جبریل علیہ الصلاۃ والسلام فنادی بالاذان ”جب آدم علیہ السلام جنت سے ہندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔ پھر ہم اس غریب کی تسکین خاطر و دفع تو حش کو اذان دیں تو کیا برا کریں۔ حاشا بلکہ مسلمان خصوصا ایسے بے کس کی اعانت حضرت حق عزوجل کونہایت پسند ،حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” اللہ فی عون العبدما کا ن فی عون اخیہ” اللہ تعالی بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی مسلمانوں ہو کی مدد میں ہے۔
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالى عليه و سلم ”من كان في حاجة اخيه كان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيمة ” جو اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی فرماتاہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ تعالی اس کے عوض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت اس پر سے دور فرمائیگا۔
مزید پڑھیں:کسی فعل میں موضوع حدیث ہو تو کیا وہ ممنوع ہو جاتا ہے؟
دلیل نمبر (۱۳)
مسند الفردوس میں حضرت جناب امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے مروی ”قال رانی النبی صلى الله تعالى عليه وسلم حزينا فقال يا ابن ابي طالب اني اراك حزينا فمر بعض الاهلك يؤذن في أذنك فانه دره الهم ”یعنی مجھے حضورسید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا :اے علی میں تجھے غمگین پاتاہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذ ان غم و پریشانی کی دافع ہے۔
مولی علی اور مولی علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا ” فجربته فوجدته كذلك ” ( ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایساہی پایا) ذکرابن حجر کمافی المرقاة (اس کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے کیا، جیسا کہ مرقات میں ہے )۔ اور خود معلوم اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ میت اُس وقت کیسے حزن وغم کی حالت میں ہوتا ہے مگر وہ خاص عباد اللہ اکابر اولیاء اللہ جو مرگ کو دیکھ کر” مر حباب بحبیب جاء على حافة” ( خوش آمدید اس محبوب کو جو بہت دیر سے آیا ) فرماتے ہیں۔
تو اس کے دفع غم والم کے لئے اگر اذان سنائی جائے کیا معذور شرعی لازم آئے حاشااللہ بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کے برابر اللہ عزو جل کو فرائض کے بعد کوئی عمل محبوب نہیں ۔ طبرانی معجم کبیر و معجم اوسط میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” ان احب الاعمال الى الله تعالى بعد الفرائض ادخال السرور على المسلم” بیشک اللہ تعالی کے نزدیک فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ محبوب مسلمان کو خوش کرنا ہے۔
انہی دونوں (طبرانی معجم کبیر اور معجم اوسط ) میں حضرت امام ابن الامام سیدحسن محبتبی رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ،حضور سید عالم صلی الله تعالى عليہ وسلم فرماتے ہیں” ان موجبات المغفرة ادخالك السرور على اخيك المسلم ” بيك موجبات مغفرت سے ہے تیرا اپنے بھائی مسلمان کو خوش کرنا۔
مزید پڑھیں:کیا ضعیف احادیث کسی کی افضلیت ثابت کرنے میں کارآمد ہوتی ہیں؟
دلیل نمبر 14
الله تعالی فرماتا ہے” یایها الذين امنوا اذكرو الله ذِكْرًا كثيرًا ”اے ایمان والوں اللہ کا ذکر کر و بکثرت ذکرکرنا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” اكثروا ذكر الله حتى يقولوا مجنون ” اللہ کا ذکر اس درجہ ذکر بکثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں ۔ اخرجه احمد وأبو يعلى وابن حبان والحاكم والبيهقي عن ابي سعيد الخدري رضى الله تعالى عنہ صححه الحاكم وحسنه الحافظ ابن حجر (اسے احمد، ابویعلی، ابن حبان ، حاکم اور بیہقی نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے حاکم نے اسے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے ) ۔
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم” اذكر الله عند كل حجر و شجر” ہر سنگ و شجر کے پاس اللہ کا ذکر کر۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہا فرماتے ہیں ” لم يفرض الله على عباده فريضة الاجعل لها حدا معلوما ثم عذر اهلها في حال العذر غير الذكر فانه لم يجعل له حدا انتهى إليه ولم يغدر احدا في تركه الأمغلوبا على عقله و أمرهم به في الاحوال كلها” الله تعالی نے اپنے بندوں پر کوئی فرض مقرر نہ فرمایا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک حد معین کردی پھر عذر کی حالت میں لوگوں کو اُس سے معذور رکھا سواذکرکے کہ اللہ تعالی نے اس کے لئے کوئی حد نہ رکھی
جس پر انتہا ہو اور نہ کسی کواس کے ترک میں معذور رکھا مگر وہ جس کی عقل سلامت نہ رہے اور بندوں کو تمام احوال میں ذکر کا حکم دیا۔ اُن کے شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں ” الذكر الكثيران لا يتناهی ابدا (ذ کر کثیر یہ ہے کہ کبھی ختم نہ ہو)۔ تو ذکر الہی ہمیشہ ہر جگہ محبوب و مرغوب و مطلوب ومندوب ہے جس سے ہرگز ممانعت نہیں ہوسکتی جب تک کسی خصوصیت خاصہ میں کوئی نہی شرعی نہ آئی ہو اور اذان بھی قطعاذ کر خدا ہے پھر خدا جانے کہ ذکر خدا سے ممانعت کی وجہ کیا ہے۔
ہمیں حکم ہے کہ ہر سنگ درخت کے پاس ذکر الہی کریں، قبر مومن کے پتھر کیا اس کے حکم سے خارج ہیں خصوصا بعد دفن ذکر خدا کرنا تو خودحدیثوں سے ثابت اور بتصریح ائمہ مستحب والہذاامام اجل ابو سلیمان خطابی دربارہ تلقین فرماتے ہیں ” لا نجدلہ حدیث مشهورا ولا بأس به اذ ليس فيه الا ذكر الله تعالى قوله وكل ذلك حسن “ ہم اس میں کوئی مشہور حدیث نہیں پا تے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ اس میں نہیں ہے مگر خدا کا ذکر اور یہ سب کچھ محمود ہے۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
دلیل نمبر15
امام اجل ابوزکریا نووی شارح صحیح مسلم کتاب الاذکار میں فرماتے ہیں ” يستحب ان يقعد عند القبر بعد الفراغ ساعة قدر ما ينحر جزور ويقسم لحمها، ويشتغل القاعدون بتلاوة القرآن والدعاء للميت والوعظ وحكايات اهل الخير، واحوال الصالحین” مستحب ہے کہ دفن سے فارغ ہو کر ایک ساعت قبر کے پاس بیٹھیں اتنی دیر کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اُس کا گوشت تقسیم ہو اور بیٹھنے والے قرآن مجید کی تلاوت اور میت کے لئے دعا اور وعظ ونصیحت اور نیک بندوں کے ذکر و حکایت میں مشغول رہیں۔
شیخ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ لمعات شرح مشکوۃ میں زیر حدیث امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہ فقیر نے دلیل ششم میں ذکر کی ، فرماتے ہیں ”قد سمعت عن بعض العلماء انه يستحب ذكر مسئلة من المسائل الفقهية” یعنی تحقیق میں نے بعض علما سے سنا کہ دفن کے بعد قبر کے پاس کسی مسئلہ فقہ کا ذکر مستحب ہے۔ اشعة اللمعات شرح فارسی مشکوہ میں اس کی وجہ فر ماتے ہیں کہ باعث نزول رحمت ست ( نزول رحمت کا سبب ہے)۔
اور فرماتے ہیں مناسب حال ذکر مسئله فرایض ست (ذکر مسلہ فرائض مناسب حال ہے )۔ اور فرماتے ہیں اگر ختم قران کنند اولی و افصل باشد. (اگر قرآن پاک ختم کریں تو یہ اولی و بہتر ہے )۔ جب علمائے کرام نے حکایات اہل خیر و تذکر د صالحین وختم قرآن و بیان مسئله فقیہہ وذکر فرائض کو مستحب ٹھہرایا حالانکہ ان میں بالخصوص کوئی حدیث وارد نہیں بلکہ وجہ صرف وہی کہ میت کو نزول رحمت کی حاجت اور ان امور میں امید نزول رحمت تواذان کہ بشهادت احادیث موجب نزول رحمت و دفع عذاب ہے کیونکر جائز بلکہ مستحب نہ ہوگی۔
بحمد اللہ یہ پندرہ دلیلیں ہیں کہ چند ساعت میں فیض قدیر سے قلب فقیر پر فائض ہو ئیں ناظر منصف جائے گا کہ ان میں اکثر تو محض استخراج فقیر ہیں اور باقی کے بعض مقدمات اور اگرچہ بعض اجلہ اہل سنت و جماعت رحمہم اللہ تعالی کے کلام میں مذکور مگر فقیر غفراللہ تعالی لہ نے تکمیل ترتیب و تسجیل تقریب سے ہر مقدمہ مفردہ کو دلیل کامل اور ہر مذکور ضمنی کومقصود مستقل کر دیا۔ ہم پر ان اکابر کا شکر واجب جنہوں نے اپنی تلاش و کوشش سے بہت کچھ متفرق کو یکجا کیا اور اس دشوار کام کو ہم پر آسان کر دیا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 654 تا 671