نماز میں جوتے سامنے یا دائیں بائیں رکھنے کی ممانعت پر دلیل
:سوال
نماز کے دوران جوتے کے دائیں بائیں یا سامنے رکھنے کی ممانعت کا ثبوت کن احادیث سے ہے؟
:جواب
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” اذا اصلی احدكم فلا يضع نعليه عن يمينه ولا عن يساره فتكون عن يمين غيره الا ان لا يكون احد وليضعهما بين رجليه ” جب تم میں کوئی نماز پڑھے تو جوتی اپنے دائیں طرف نہ رکھے نہ اپنے بائیں طرف رکھے کہ دوسرا جو اس کے بائیں ہاتھ کو ہے اس کے دہنی طرف ہوں گی ہاں اگر بائیں طرف کو کوئی نہ ہو تو بائیں جانب رکھے ورنہ اپنے پاؤں کے بیچ میں رکھے۔
( سنن ابوداؤ د،ج 1 ،ص96، آفتاب عالم پریس، لاہور )
دوسری روایت میں اس ممانعت کی یوں حدیث آئی ”فلا يؤذ بهما احدا ”کسی کو ایذاء نہ دے۔
(المستدرك ،ج 1،ص 259، دار الفکر، بیروت )
علماء نے اس ایذا کی وجہ فرمائی یعنی وفيه نوع اهانة له ، جس کی طرف جو تا رکھا جائے اس کی اہانت ہوتی ہے۔
(مرقات المفاتح ،ج 2 ،ص475 ،مكتبه حبیبیہ، کوئٹہ )
مزید پڑھیں:حالت نماز میں کھجلی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
اعلی درجہ کی حدیث صحیح ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” اذا كان احدكم يصلى فلا يبصق قبل وجهه فان الله تعالى قبل وجهه اذا صلى ” جب تم میں کوئی نماز میں ہو تو سامنے کو نہ تھو کے کہ نمازی کے سامنے اللہ عز وجل کا فضل و جلال و رحمت ہوتے ہیں۔ اسے امام مالک نے موطا میں امام نافع سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے اور اسی سند سے بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔
(موطا امام مالک،ج 1،ص 182 ، میر محمد کتب خانہ ،کراچی )
ائمہ دین اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں “یحب على المصلي أبرام قباته بما يكرم به من يناجيه من المخلوقين عند استقبالهم بوجهه ” یعنی نمازی پر واجب ہے کہ معظمین کے سامنے کھڑے ہونے میں جس بات میں ان کی تعظیم جانتا ہے وہی ادب اپنی جانب قبلہ میں ملحوظ رکھے کہ اللہ عز وجل سب سے زیادہ احق با لتعظیم ہے۔
(ارشاد الساری شرح البخاری، ج 1 ،ص419، دار الکتاب العربي، بیروت )
ان احادیث میں دہنے بائیں کا حکم صاف مصرح ہے اور سامنے کا حکم اس حدیث صحیح کہ دلالة النص اور اسی ارشاد علما کے عموم اور نیز اس قاعدہ مسلمہ مرعیہ عقلیہ شرعیہ سے معلوم کہ توہین و تعظیم کا مدار عرف و عادت ناس و بلاد ( لوگوں اور شہروں کی عادت ) پر ہے۔ اور شک نہیں کہ اب عرف عام تمام بلاد یہی ہے کہ دربار شاہی میں بحضور سلطانی باتیں کرنے کھڑا ہو اور جوتا سامنے رکھے بے ادب گنا جائے گا فقیر نے بچشم خود دیکھا ہے کہ کعبہ معظمہ پر پھوہار بری تھی میزاب رحمت سے بوندیں ٹپک رہی تھیں مسلمان حاضر تھے اُن بوندوں کو لیتے اور چشم و دل سے ملتے، ان میں کوئی ہندی شخص جوتا ہاتھ میں لئے تھا تر کی خادم دوڑا اور اس کی گردن دبادی تناجى ربك ونعلاك بيدك جوتیاں ہاتھ میں لئے ہوئے اللہ تعالی سے مناجات کرتا ہے، بلکہ سنن ابن ماجہ میں حدیث ابی ہریرہ رضی الله تعالی عنہ میں یوں ہے” فاجعلهما بين رجليك ولا تجعلهما عن يمينك ولا عن يمين صاحبك ولا ورائك فتوذى من خلفك ” یعنی جوتے اپنے پیچھے بھی نہ رکھ جو پیچھے ہے اس کے آگے ہوں گے اسے ایذا ہوگی ۔
(سنن ابن ماجہ،ج1،ص105 ، آفتاب عالم پریس ،لاہور )

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 314

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 622, 623
مزید پڑھیں:سدل ( کپڑا لٹکانے) کی کیا صورت ہوگی ؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top