نماز کی نیت میں آج کا لفظ کینا کیسا؟
:سوال
فرائض اور واجبات کی نیت میں لفظ ” آج ” یا ” اس” کا اضافہ کرنا چاہئے یا نہیں ؟ مثلا یوں کہنا کہ نیت کرتاہوں فرض آج کے ظہر یا عصر یا اس ظہر یا عصر کی ، اور اگر نہیں کرے گا تو نماز ادا ہو گی یا نہیں ؟
:جواب
 نیت قصد قلبی کا نام ہے تلفظ اصلاضروری نہیں نہایت کار ( زیادہ سے زیادہ ) مستحب ہے تو لفظ اس یاآج در کنار سرے سے کوئی حرف نیت زبان پر نہ لایا تو ہرگز کسی طرح کا حرج بھی نہیں۔قصد قلبی کی علمائے کرام نے یہ تحدید ( حد بندی ) فرمائی کہ نیت کرتے وقت پو چھا جائے کہ کون کی نماز پڑھنا چاہتا ہے۔
تو فوراً بے تامل بتادے ۔۔ اور شک نہیں کہ جو شخص نماز وقتی میں یہ بتادے گا کہ مثلا نماز ظہر کا ارادہ وہ یہ بھی بتا دے گا کہ آج کی ظہر شاید یہ صورت کبھی واقع نہ ہو کہ نیت کرتے وقت دریافت کئے سے یہ تو بتادے کہ ظہر پڑھتا ہوں اور یہ سوچتا ر ہے کہ کب کی تو قصد قلب میں تعیین نوعی نماز کے ساتھ تعیین شخصی بھی ضروری ہوتی ہے اور اسی قدر کافی ہے
ہاں اگر کوئی شخص بالقصد ظہر غیر معین کے نیت کرے یعنی کسی خاص ظہر کا قصد نہیں کرتا بلکہ مطلق ظہر پڑھتا ہوں چاہے وہ کسی دن کی ہو تو بلا شبہ اس کی نماز نہ ہوگی۔ فان التعيين في الفرض فرض بالوفاق وانما الخلف في عدم اللحاظ لا لحاظ العدم ( فرائض میں تعیين وقت بالا تفاق فرض ہے عدم لحاظ میں اختلاف ہے لحاظ عدم میں کوئی اختلاف نہیں ہے )۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 47

READ MORE  آذان فجر صبح کا ذب میں کہنا چاہئے یا صبح صادق میں؟
مزید پڑھیں:یہ کہنا کہ نماز خدا تعالی کی پڑھتا ہوں جائز ہے یانہیں ؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top