:سوال
اکثر کتب نظم و نثر میں آیات سجدہ لکھی ہوتی ہے ان کا کیا حکم ہے؟ آیا سجدہ کرنا چاہئے یا نہیں؟ جیسے منقبت میں جناب مولوی عبد القادر صاحب کا شعر ہے
راہ حق میں کر دیا سجدہ میں قربان اپنا سر
ایی و اسجد واقترب کی کس نے کی تغییر ہے کی
:جواب
وجوب سجدہ تلاوت، تلاوت کلمات معینہ قرآن مجید سے منوط ہے۔ وہ کلمات جب تلاوت کئے جائیں گے سجدہ تالی ( قاری ) و سامع پر واجب ہوگا۔ کسی نظم یا نثر کے ضمن میں آنے سے غایت یہ ہے کہ اول و آخر کچھ غیر عبارت مذکور ہوئی جسے ایجاب سجدہ میں دخل نہ تھا، نہ یہ کہ حکم سجدہ کی رافع ومزیل ہو اُس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوا، جس طرح حرف اسی قدر کلمات تلاوت کریں اور اول و آخر کچھ نہ کہیں سجدہ تلاوت واجب ہوگا ، ایسے ہی یہاں بھی کہ جس عبارت کا عدم وجود یکساں ہے وہ نظرسے ساقط اور حکم سکوت میں ہے۔
ہاں قابل غور یہ بات ہے کہ سجدہ تلاوت کس قدر قرآت سے ہوتا ہے اصل مذہب و ظاہر الروایہ میں ہے کہ ساری آیت بتمامہا اس کا سبب ہے یہاں تک کہ اگر ایک حرف باقی رہ جائے گا سجدہ نہ آئے گا مثلا اگر حج میں الم تر ان اللہ سے ان الله يفعل ما تک پڑھ گیا سجدہ نہ ہوا جب تک یشاء بھی نہ پڑھے، اور یہی مذہب آثار صحابہ عظام و تابعین کرام سے مستفاد اور ایسا ہی امام مالک و امام شافعی و غیر ہما ائمہ کا ارشاد بلکہ ائمہ متقدین سے اس بارے میں اصلاً خلاف معلوم نہیں کتب اصحاب سے متون کے نقل مذہب کے لئے موضوع ہیں قاطبہ اسی طرف گئے اور دلائل و کلمات عامہ شروح کہ تحقیق و تنقیح کی متکفل ہیں اس پر مبنی و متبنی ہوئے اور اکا بر اصحاب فتا وی بھی ان کے ساتھ ہیں۔
مزید پڑھیں:تلاوت قرآن کے وقت سجدہ تلاوت کا طریقہ
اس مذہب جلیل الشان مشید الارکان پر شعر مذکور کے پڑھنے سننے سے سجدہ نہیں آسکتا کہ اس میں آیت سجدہ بتمامہا نہیں، اسی طرح ہر وہ نظم جس میں پوری آیت سجدہ نہ ہو، اور یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ قرآت و سما عبید اعظم مطلقا موجب سجدہ نہیں کہآیات چار دوگانہ ( سجدے والے چودہ آیات) سے کوئی آیت وزن عروضی کی مساعدت نہیں فرماتی جسے نظم میں لانا چاہیں گے یا پوری نہ آئے گی یا ترتیب کلمات بدل جائے گی بہر حال آیت بحالہا باقی نہ رہے گی۔
ہاں بعض علمائے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ آیت سجدہ سے صرف دو کلے پڑھنا موجب سجدہ ہے جن میں ایک وہ لفظ جس میں ذکر سجود ہے جیسے آیت سوال میں لفظ و اسجد اور دوسرا اُس کے قبل یا بعد کا جیسے اس میں واقترب یہ مذہب اگر چہ ظاہر الروایہ بلکہ روایات نوادر سے بھی جدا، اور مسلک ائمہ سلف و تصریح و تلویح متون و شروح کے بالکل خلاف ہے مگر سراج وہاج و جوہرہ نیرہ و مراقی الفلاح میں اس کی تصحیح واقع ہوئی۔
بالجملہ اصل مذہب معلوم ہے تا ہم محل وہ ہے کہ سجود میں ضر ر نہیں اور بر تقدیر و جوب ترک معیوب اور صریح صحیح جاذب قلوب ( دلوں کو کھینچنے والی) ، لہذا انسب یہی ہے کہ اسی مذہب مصحح پر کار بند ہو کر شعر مذکور کی سماعت و قرآت پر سجدہ کر لیں اس طرح ہر نظم و نثر میں جہاں آیت سجدہ سے صرف سجدہ مع کلمہ مقارنہ پڑھا جائے سجدہ بجالائیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 223

READ MORE  حضور ﷺ سے نعلین پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے
مزید پڑھیں:امام کا رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top