:سوال
کسی حافظ کو اس طور پر نماز تراویح کی پڑھانی کہ پہلے ایسی قوم کے ساتھ جو آٹھ رکعتیں تراویح منفرد پڑھ چکے ہوں بارہ رکعتیں ختم تراویح پڑھا کر پھر : دوسری قوم کے پاس جو بارہ رکھتیں تراویح کی منفرد پڑھ چکے ہوں جا کر آٹھ رکعتیں تراویح کی ہر شب میں پڑھانی جائز ہیں یا نہیں ؟
:جواب
اصل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بیس رکعت تراویح سنت عین ہیں کہ اگر کوئی شخص مرد یا عورت بلا عذر شرعی ترک کرے مبتلائے کراہت وا ساءت ہو اور ان کی جماعت کی مساجد میں اقامت سنت کفا یہ کہ اگر اہل محلہ اپنی اپنی مسجدوں میں اقامت جماعت کریں اور اُن میں بعض گھروں میں تراویح تنہا یا با جماعت پڑھیں تو حرج نہیں اور اگر تمام اہل محلہ ترک کریں تو سب گنہگار ہوں ۔ پس صورت مستفسرہ میں امام اور دونوں جگہ کے مقتدی تینوں فریق سے جس کے لئے یہ فعل اس شناعت کا موجب ہو اس کے حق میں کراہت واساءات ہے ورنہ فی نفسہ اس میں حرج نہیں مثلا امام و برد وقوم کی مساجد میں جماعت تراویح جدا ہوتی ہے یہ گھروں پر بطور مذکور جماعت وانفراداً پڑھتے ہیں تو کسی پر مواخذہ نہیں کہ ہر گروہ مقتدیان نے اگر بعض ترویحات تنہا اور ہرسہ فریق نے مسجد سے جدا پڑھیں مگر جبکہ اُن کی مساجد میں اقامت جماعت ہوتی ہے سنت کفایہ ادا ہو گئی، ہاں امام دونوں قوموں کو پوری تراویح پڑھاتا تو یہ جدا کراہت ہوئی اس سے صورت مستفسر ہ خالی ہے۔
اور اگر ان میں کسی فریق کی مسجد میں یہی جماعت بطور مذکور ہوئی ہے تو اس کے لئے کراہت ہے کہ اس کی مسجد میں پوری تراویح جماعت سے نہ ہو ئیں لہذا اس صورت میں یہ چاہئے کہ ایک فریق آٹھ یا بارہ رکعتیں دوسرے امام کے پیچھے پڑھ کر باقی میں اس حافظ کی اقتدا کرے اور دوسرا فریق بارہ یا آٹھ رکعات میں دوسرے کا مقتدی ہو کر باقی میں اس کا مقتدی ہو کہ اب دونوں مسجدوں میں پوری تراویح کی اقامت جماعت سے ہو جائے گی اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ بعض ترویحات میں ایک امام کی اقتداء ہو اور بعض دیگر میں دوسرے کی ہاں یہ نا پسند ہے کہ ایک ترویجہ میں دور کعت کا امام اور ہودو گا اور ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 461